سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
خراب،حلال بھی مچھر کے پر کے برابر نہیں تو حرام کی کیا حیثیت ہے۔ یہ دارلامتحان ہے ؎ دنیا میں میں رہتا ہوں طلبگار نہیں ہوں بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوںگناہ کا اثر ارشاد فرمایا کہ گناہ کے لیے بے چینی لازم ہے۔ اور کتنی بے چینی؟ جیسی دوزخ میں ہوگی کہ لَا یَمُوۡتُ فِیۡہَا وَ لَا یَحۡیٰی؎ نہ وہ دوزخ میں مریں گے اور نہ جیئیں گے،کیوں کہ گناہ دوزخ کی شاخ ہے اور شاخ میں مرکز کا اثرہوتا ہے، جس طرح مرکز کا علاج اللہ تعالیٰ اپنے قدم کی تجلی سے فرمائیں گے اسی طرح نفس کا علاج اللہ تعالیٰ کے نور کی تجلی سے ہوگا ۔بدنظری کا گناہ ارشاد فرمایا کہ لوگ بدنظری کے گناہ کو اہمیت ہی نہیں دیتے او ر کہتے ہیںکہ ہمیں دیکھنے سے کوئی بُرا خیال نہیں آتا،جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہٗ کو فرمایا تھا کہ پہلی نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنا، حالاں کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایمان کیسا تھا! فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایسا ایمان بالغیب عطا فرمایا ہے کہ اگر عالمِ غیب کھل جائے تو ذرا بھی اضافہ نہ ہو۔ اسی لیے آج تصوف میں برکت نہیں کہ صوفی بہت ہیں،لیکن گناہ سے نہیں بچتے۔ اگر کوئی ایک بھی گناہ کرتا ہے تو تصوف میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ جب جیب ہی کٹتی رہے تو مال کیسے جمع ہوسکتا ہے؟اسی لیے تو تصوف کا مزہ متقی لوگ ہی اڑاتے ہیں۔ ہاں! اگر خطا ہوجائے تو معافی مانگ لے،اسی لیے اِسْتَغْفِرُوْا کا حکم ہے خطائیں تو ہوں گی، لیکن باربار معافی مانگو، کیوں کہ صیغۂ امر میں تجدّدِ استمراری کی شان ہے ۔ ------------------------------