سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
برق اور پرندوں کی آہ وفغاں لرزتی برق بھی ہے آشیاں سے پڑا پالا ہے طائر کی فغاں سے اس پر ارشاد فرمایا کہ برق اس لیے لرزتی ہے کہ پرندے اپنے آشیانوں میںآہ وفغاں کرتے ہیں، ان کی آہ وفغاں سے برق میں لرزہ پیدا ہوجاتا ہے اور وہ اپنے رخ بدل دیتی ہے۔ تو بندہ ان کے دربار میں آہ وفغاں کرے،تو جہاں کی برق و باراں اپنا رخ بدل لے ؎ اگر ہے برق وباراں اسی جہاں میں کرو فریاد اپنے آشیاں میںخونِ تمنا کے ذریعے رابطہ حضرت والا کی خدمت میں یہ شعر پڑھا گیا ؎ بہت خونِ تمنا سے زمیں نے کیا ہے ربط آسماں سے اس پر ارشاد فرمایا کہ زمین سے مراد انسان ہے جو مٹی سے بنا ہے ۔تو جب انسان خونِ تمنا کرتا ہے تو خالقِ آسمان سے رابطہ پیدا ہوجاتا ہے۔ یہی عشق کا راستہ ہے اور بہت مختصر راستہ ہے، اسی لیے عاشق ایک دن میں وہ راستہ طے کرتا ہے جو زاہد خشک ایک ماہ میں طے کرتا ہے۔عاشق کے آنسو پھر یہ شعر پڑھا گیا ؎ یہ کیوں ہے سرخ سجدہ گاہِ عاشق دعا کرتے ہیں چشم خون فشاں سے اس پر ارشاد فرمایا کہ عاشق جب سجدہ کرتا ہے تو خونِ جگر ٹپکاتا ہےاورجب روتا ہے تو