سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
ہوئی تھیں۔چوں کہ یہ آخری مجلس تھی اس کا احساس لوگو ں کے چہروں سے عیاں تھا۔ بڑی رقت اور دیوانگی کے ساتھ حضرت کی زیارت کر رہے تھے۔ حضرت والا کو خلافِ معمول بلند و بالا منبر پر بٹھایا گیا تاکہ دور تک کے لوگ آسانی سے زیارت کر سکیں ۔ پہلی کئی مجلسوں میں یہ اعلان ہوتا رہا کہ آخری مجلس میں حضر ت شیخ سے مصافحہ ہو گا ۔ اس لیے لوگ مصافحہ کی برکت حاصل کرنے کے لیے اپنے سمجھدار بچوں کو بھی ساتھ لائے تھے۔خطبہ حضر ت شیخ نے خطبۂ مسنونہ کے بعد یہ حدیث تلاوت فرمائی : قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ حُبَّکَ وَ حُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلٍ یُّقَرِّبُ اِلٰی حُبِّکَ؎حسرتِ فراق ارشاد فرمایا کہ حضرت مولانا محمد احمد صاحب پرتاب گڑھی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جب کوئی محبوب عالم اور بزرگ مہمان آتا تو فرمایا کر تے تھے ؎ ترا آنا میرے احساس میں جانِ مسرت ہے مگر جانا ستم ہے غم ہے حسرت ہے قیامت ہے مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے ایسے عاشقوں کی صحبت عطا فرمائی جو سراپا محبت تھے۔ آہ اہلِ محبت بڑی نعمت ہے۔ اور جب کوئی کہتا کہ میں جانا چاہتا ہوں، تو فرماتے ؎ جانے کا نام سن کے مرا دل دہل گیا ظالم یہ آج منہ سے ترے کیا نکل گیا پھر فرمایا کہ ایک شاعر نے اپنے دوست کے جانے پر کہا ؎ ------------------------------