سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
خونداریم اے جمال مہتری کہ لب ما خشک و تو تنہا خوری اے چاند سے زیادہ پیارے میرے شیخ ! میں اس کا عادی نہیں ہوں کہ میرے ہونٹ تو خشک رہیں اور آپ اللہ تعالیٰ کی شرابِ محبت کے خم کے خم پیتے رہیں ۔ تو ہم بھی آپ سے دعا کی یہی درخواست کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو صاحبِ نسبت اوراللہ والابنادے اوراپنے دوستوں کی حیات بخش دے اور نسبتِ اولیائے صدیقین کی خطِ انتہا تک پہنچا دے ۔ بس آپ آمین فرما دیجیے،یہی آپ کی دعا ہے ۔ ایک بجے کے قریب مفتی صاحب کے گھر سے واپسی ہوئی ۔قبرستان میں حاضری حضرت شیخ دامت برکاتہم واپسی پر رنگون کے قبرستان میں تشریف لے گئے۔ قبرستان کے ساتھ محمد جان نامی ایک مسجد ہے اور اس کے علاوہ تین اوربھی دارالعلوم رنگون میں ہیں ۔ یہ قبرستان بڑا قدیم ہے اور اس میں بڑے بڑے اکابر بزرگانِ دین مدفون ہیں ۔ اب حکومت کی طرف سے اس قبرستان میں تدفین ممنوع ہے۔ حکومت قبرستان کو مسمار کر کے وہاں سرکاری عمارت تعمیر کرنا چاہتی ہے،مسلمان اس کو بچانے کے لیے بڑی کوشش کر رہے ہیں اور حضرت سے بھی اس سلسلے میں دعا کی درخواست کی گئی۔ حضرت والا نے دعا فرمائی اور فرمایا کہ سب لوگ تین دفعہقُلۡ ہُوَ اللہُ اَحَدٌ ؎پڑھ کر پورے قبرستان والوں کو بخش دیں۔چناں چہ ایسا ہی کیا گیا ۔یہاں پر حضرت شیخ دامت برکاتہم نے حضرت میر صاحب دامت برکاتہم سے فرمایا کہ سندھ بلوچ سوسائٹی کراچی کی زمین کا ایک قطعہ جو قبرستان کے لیے وقف کیا گیا ہے، اس کے لیے مجھ سے وصیت لکھوا لو کہ ایک قبر میں دوسری قبر بنائی جائے جس طرح جنت البقیع میں ہو تا ہے اور اس سلسلے میں میں نے اہل فتاویٰ سے مشورہ کر لیا ہے۔حضرت شیخ ------------------------------