سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ وَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَااَبَا ہُرَیْرَۃَ اِتَّقِ الْمَحَارِمَ تَکُنْ اَعْبَدَ النَّاسِ ؎ پھرارشاد فرمایا کہ میں ضرورتاًاوپر بیٹھا ہوں، ورنہ میرے دل میں پستی ہے، تاکہ آپکی آنکھوں سے فیض لوں۔یہ بہتر ہے اس سے کہ میرے دل میں بلندی اور کبر ہو اور قالباً پستی ہو۔فرماں برداروں کا ہنسنااور نافرمانوں کا ہنسنا ارشاد فرمایا کہ حدیثِ پاک میں کثرتِ ضحک سے دل مردہ ہونے کی جووعید وارد ہوئی ہے اس سے مراد وہ ہنسی ہے جو غفلت کے ساتھ ہو۔یہ بات ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نےمرقاۃ شرح مشکوۃ میں حدیثاِنَّ کَثْرَۃَ الضِّحْکِ تُمِیْتُ الْقَلْبَ؎ کی شرح میں لکھی ہے۔ جو لوگ شرح نہیں دیکھتے وہ مطلق ہنسی کو بُرا سمجھتے ہیں۔ اگر حدیثِ پاک کے یہ معنیٰ ہوتے جو یہ متقشف(خشک) لوگ سمجھتے ہیں تو ہنسنا ثابت ہی نہ ہوتا حالاں کہ حدیثوں میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا ہنسے حَتّٰی بَدَتْ نَوَاجِذُہٗ کہ آپ کی داڑھیں کھل گئیں۔اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی ہنسا کرتےتھے کَانُوْا یَضْحَکُوْنَ وَلٰکِنَّ الْاِیْمَانَ فِیْ قُلُوْبِھِم کَانَ اَعْظَمَ مِنَ الْجَبَلِ؎ صحابہ کرام خوب ہنستے تھے، لیکن ایمان ان کے دلوں میں پہاڑوں سے بھی زیادہ تھا ۔ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ مفتی اعظم پاکستان نے بتایا کہ ایک بار خواجہ صاحب نے ہم لوگوں کو خوب ہنسایا۔ پھر ہم سے دریافت فرمایا کہ بتاؤ، اس وقت ہنسی کی حالت میں کس کس کا دل اللہ تعالیٰ سے غافل تھا؟ حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ ہم لوگ خاموش رہے،تو خواجہ صاحب نے فرمایا کہ الحمد للہ! میرا دل اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشغول تھا ، پھر یہ شعر پڑھا ؎ ------------------------------