سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
یہ نصیب اللہ اکبر! لوٹنے کی جائے ہے یَا رَبِّ صَلِّ وَسَلِّمْ دَائِمًا اَبَدً ا عَلٰی حَبِیْبِکَ خَیْرِالْخَلْقِ کُلِّھِمْرضاء بالقضاء کی تصویر حکیم الامّت حضرت تھانوی رحمۃ ا للہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ایک مقام اخلاص سے بھی بلند ہے وہ ہے، رضاء بالقضاء یعنی اللہ تعالیٰ کے قضاء و قدر کے فیصلوں پر دل و جان سے راضی رہنا ،چناں چہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امّت کو اس کی عملی تعلیم اس وقت دی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہورہا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے:اے ابراہیم! ہم آپ کی جدائی پر غمگین ہیں۔ ؎ لیکن ہم اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر دل سے راضی ہیں؟ اس واقعے سے معلوم ہوا کہ طبعی غم رضاء بالقضاء کے منافی نہیں ہے، بشرطیکہ دل اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر مطمئن ہو۔ اولیائے صدیقین کو اس مقام کا حاصل ہونا ضروری ہے لیکن اللہ تعالیٰ ان کے مقامِ قرب میں اضافہ اور مخلوق کو ان کے رضاء بالقضاء کے مقام پر فائز ہونے کا نظارہ کرانے اور سبق دینے کے لیے آزمایشوں میں مبتلا فرمادیتے ہیں۔ سیدی و مرشدی عارف باللہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم پر ۳۱ جولائی ۲۰۰۰ء بروز بدھ فالج کا حملہ ہوا جس سے دایاں حصہ اور زبان بری طرح متأثر ہوئی، لیکن اوّل یوم سے حضرت کے چہرہ پر جو اطمینان کی کیفیت تھی وہ کسی تندرست اور توانا کو بھی حاصل نہیں۔ بندہ جب اگلے روز بہاول نگر سے کراچی پہنچا اور حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا تو بندہ کو دیکھ کر حضرت مسکرائے جبکہ بندہ رو رہا تھا۔ ------------------------------