سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
’’کَفُّ النَّفْسِ عَنِ الْھَوٰی‘‘یعنی نفس کو خواہشاتِ نفسانی سے روکنا ۔ اگر دل میں خواہشات ہی پیدا نہیں ہوں گی تو کس چیز کو روکو گے؟ جب دل ہی نہ چاہے گا تو کیاخاک تقویٰ ہو گا اور پھر مجاہدہ ہی کہاں رہا ! تقویٰ اس کا نام ہے جس پر ابھی ابھی یہ شعر ہو ا ہے کہ ؎ دل چاہتا ہے حسن کو میں جھوم کے چوموں پر خوفِ خدا سے نہیں چوموں گا میں ہر گز مولانا محمد یوسف صاحب جو گاڑی چلا رہے تھے،انہوں نے بتایا کہ بہادر شاہ ظفر کا مزار آگیا ہے، گاڑی مزار کے احاطے میں جا کر رک گئی۔آپ نے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے دعائے مغفرت کی اور وہاں سے قیام گاہ پر واپسی ہوئی ۔کچھ بہادر شاہ ظفر کے بارے میں آپ کی پیدایش ۱۷۷۵ء میں ہوئی ۔ابو ظفر بہادر شاہ خاندان تیموریہ کا آخری بادشاہ ہے جس پر سلطنتِ مغلیہ ہندوستان میں ختم ہو گئی۔آپ حضرت قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ سے عقیدت و ارادت کا تعلق رکھتے تھے اوران کے بہت بڑے عاشق تھے،چناں چہ فرماتے ہیں ، شعر ؎ مرید قطب الدین ہوں خاک پائے فخر دین ہوں میں اگر چہ شاہ ہوں ان کا غلام کمترین ہوں میں بہادر شاہ ظفر ہے نام میرا پورے عالم میں و لیکن اے ظفر ان کا گدائے رہ نشین ہوں میں شریعتِ مطہرہ کے پابند تھے ۔ پاکبازی اور خدا ترسی مشہور تھی ۔ بڑے پائے کے شاعر بھی تھے ۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کے بعدانہیں انگریزوں نے گرفتار کیا اور ان پر بغاوت کا مقدمہ چلایا ۔ ۹ مارچ ۱۸۵۸ء کو ملک بدر کر کے رنگون بھیجنے کا فیصلہ صادر کر دیا گیا ،رنگون میں چار سال نہایت عسرت اور تنگدستی میں بسر کیے۔ آپ کی وفات ۷نومبر ۱۸۶۲ء میں ہوئی۔ اور عالم غربت میں بہادر شاہ ظفر