سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
اس پر ارشاد فرمایا کہ جب تک اللہ اللہ کرنے والے رہیں گے قیامت نہ آئے گی۔ تو اللہ اللہ زمین وآسمان کی حفاظت کی ضمانت ہے، لہٰذا جو سانس یادِ الٰہی میں گزرے وہ کون ومکاں سے کم نہیں۔پھر فرمایا : بوریے بستر کی پہچان ہر ایک کو نہیں،اس پر بیٹھنے والے بعض لوگ ریا کار بھی ہوتے ہیں، لیکن اصلی لوگ بادشاہوں سے کم نہیں۔ اور اس شعر میں اہلِ وفا کا لفظ ہی بتلارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وفادار لوگ مراد ہیںجو ان کی مرضی پر جیتے ہیں اور ان کی مرضی پر مرتے ہیں۔عشرت اور حسرت ارشاد فرمایا کہعشرت میں انسان شکر کے راستے سے اللہ تک پہنچتا ہے اور حسرت میں صبر کے راستے سے پہنچتا ہے ؎ ہے اسی طرح سے ممکن تیری راہ سے گزرنا کبھی دل پے صبر کرنا کبھی دل سے شکر کرنا لیکن عشرت کا راستہ خطرناک ہے، لوگ عیش پرست ہوجاتے ہیں، لیکن حسرت میں آہ وزاری اور بےقراری ہوتی ہے جس سے جلد منزل تک پہنچ جاتا ہے، جیسے نظر بچانے کا غم اٹھایا اور تلملاکے رہ گیا ۔ یعنی کسی کے رخسار کے تل سے نظر بچاکے بلبلاکے رہ گیا، اس پر پھر حلاوتِ ایمانی دل میں آتی ہے اور نورِ تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ پھر یہ حلاوتِ ایمانی اور نور خون کے ذریعے پورے جسم میں سپلائی ہوتا ہے اور چہرے پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِذَارُاُوْاذُکِرَ اللہُ؎ کہ انہیں دیکھ کر اللہ یاد آتا ہے، تو پھر اہلِ عشرت اس صاحبِ حسرت کے گدابن جاتے ہیں۔ شروع میں چند دن احساس محرومی ہوتا ہے،لیکن بعد میں راہ تقویٰ میں مزہ آتا ہے۔ واللہ! سخت مصیبت میں ہیں جونظر خراب کرتے ہیں اور بہت آرام میں ہیں جونظر بچاتے ہیں۔ حسرت پر رحمت برستی ہے اور ناجائز عشرت پر لعنت برستی ہے ۔ ------------------------------