سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
طبیعت کا بندہ اور اللہ تعالیٰ کا بندہ ارشاد فرمایا کہ جب حسینوں کی شکل بگڑ جاتی ہے تو پھر کیوں جاں نثاری اور وفاداری نہیں کرتے ، پھر کیوں بھاگتے ہو؟جب چمک دمک تھی تو دیکھ رہا تھا اورجب چمک دمک ختم ہو گئی تو اب بغلیں جھانک رہا ہے۔ معلوم ہو ا کہ یہ طبیعت کا بندہ ہے اللہ تعالیٰ کا بندہ نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کا سچابندہ وہ ہے کہ طبیعت لاکھ چاہے کہ اس کو دیکھ لو اور وہ پھر یہی کہے کہ ؎ نہ دیکھیں گے نہ دیکھیں گے انہیں ہرگز نہ دیکھیں گے کہ جن کو دیکھنے سے رب میرا ناراض ہوتا ہے بتاؤ! شکل بگڑنے کے بعد تم بھاگے،تو تم میں اور کافر، عیسائی،یہودی اور ہندو میں کیا فرق ہوا؟ وہی شکل جس پر غز ل خوانی ہو رہی تھی اور چائے پانی پلایا جا رہا تھا اور جوانی اس پر تباہ کی جا رہی تھی، جب وہی شکل بگڑ گئی تو اب بھاگے وہاں سے ؟ شکل بگڑنے سے جو بھاگتا ہے اس کے اس فرار کی کوئی قیمت نہیں۔ اس کا ایمان کیا کہوں کتنا ضعیف ہے،کیوں کہ ہندو عیسائی اور یہودی بھی بھاگ جاتا ہے جب کوئی حسین لڑکا یا لڑکی بڈھی ہوجاتی ہے۔تو اے ایمان والو ! تمہاری ولایت اوردوستی کا کیا معیار ہوا ؟ تم جو خانقاہ میں اللہ اللہ کرتے ہو ، اللہ والوں کا دامن پکڑے ہوئے ہو اور تہجد و اشراق پڑھ رہے ہو اور نفلی حج اور عمرہ کر رہے ہو، تو تمہارے میں اور اس کا فر میں کیافرق ہوا؟ مومن اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء کی شان یہ ہے کہ عین عالمِ شباب ہو اور دل چاہتا ہو کہ اس حسین کو دیکھ لیں، مگر اس وقت بھی اپنے دل کو غلام بنائے رکھا اورمولیٰ کو اپنے دل پر حاکم رکھا اور دل سے کہہ دیا کہ چاہے جان جاتی رہے، لیکن اس کو دیکھ کر ہم اپنے مولیٰ کو ناراض نہیں کریں گے اور اپنی نظر سے کہتے ہیں کہ اے نظر! تو غلط ہے میرا مولیٰ صحیح فرما رہا ہے، میرے مولیٰ نے اس کو حرام فرمایا ہے ۔ اس زمانے میں نظر بچا لو، اسی سے ولی اللہ ہو جاؤ گے۔ اس زمانے میں لمبے لمبے وظیفے ، تہجد و اشراق ،نفلی حج اور عمرہ کی ضرورت نہیں، بس ایک کام کرلو کہ کام نہ کرو،