سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
حضرت والا خوش ہوگئے اور احقر کو تنہائی میں بلا کر ایک نعمت دے کر چلے گئے جو میں نہیں بتاؤں گا۔ حضرت میر صاحب نے عرض کیا کہ اگر حضرت والا بتا دیں،تو ہم لوگوں کو فائدہ پہنچ جائے گا۔تو حضرت شیخ نے فرمایا کہ حضرت والا نے میرے اسفار پر پابندی لگادی تھی وہ بحال فرما دی۔اور پابندی لگانا بھی شیخ کی شفقت ہے۔ حضرت والا نے دیکھا کہ میرے خلیفہ کو ساری دنیا میں بلایا جارہا ہے، ایسا نہ ہو کہ اس کے دل میں عُجب پیدا ہوجائے۔ شیخ کی شفقت کبھی گوارانہیں کرتی کہ میرا مرید ہلاک ہوجائے، اسی لیے کبھی ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہے اور کبھی تحریر و تقریر پر پابندی لگا دیتا ہے ، لیکن یہ شعر سن کر حضرت والا کو یقین ہوگیا کہ جو شیخ کا عاشق ہوتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ ضایع نہیں کرتا۔ ضایع وہی لوگ ہوئے جن کے سر پر کوئی بڑا نہیں تھا ۔ جس کار پر کسی کا پاؤں نہ ہو یعنی کار کا کوئی ڈرائیور نہ ہو وہ جہاں تک سیدھا راستہ ہوگا جائے گی، لیکن جہاں موڑ آئے گا وہیں ٹکراجائے گی۔ جن کی گردن پر کسی شیخ کا پاؤں نہیں تھا وہ کچھ دور تک تو صحیح چلے لیکن کہیں جاہ کے،کہیں باہ کے موڑ پر تصادم کر بیٹھے اور پاش پاش ہوگئے، خود بھی تباہ ہوئے اور جو اُن کے ساتھ تھے وہ بھی تباہ ہوئے۔ جاہ اور باہ کے موڑوں پر شیخ ہی مرید کو سنبھالتا ہے۔مجالس بروزِ منگل ، ۱۷ ؍ فروری ۱۹۹۸ء فجر کے بعد کا معمول حضرت شیخ دامت برکاتہم کا سفر اور حضرمیں فجر کے بعد ٹہلنے کا معمول ہے۔ چناں چہ رنگون میں بھی دوسرے دن سترہ فروری کو رنگون شہر کے وسط میں واقع خوبصورت جھیل پر تشریف لے گئے،لیکن وہاں پر مردوں اور عورتوں کے اژدہام کی وجہ سے تھوڑا سا ٹہل کر واپس آگئے اور فرمایا کہ کل کسی ایسی جگہ پر چلیں گے جہاں پر سکون اور پاک صاف فضا ہو۔ چناں چہ آیندہ پھر جھیل کے دوسرے کنارے پر جہاں ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوسکتے تھے وہاں پر تشریف لے جاتے تھے۔اس پر حضرت نے فرمایا کہ دنیا