سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
لوگوں کو کچھ گھبراہٹ ہو رہی تھی۔ لوگ بھی ہمیں دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے۔ اچانک حضرت والانے فرمایا کہ ان لوگوں کے ہاں بوڑھوں کی کوئی اہمیت نہیں،یہ لوگ اپنے ماں باپ کو اُولڈ ہاؤس چھوڑ آتے ہیں اور پھر ان کی خبر نہیں لیتے اوروہ سسک سسک کرمر جاتے ہیں۔یہ کیا یاد رکھیں گے کہ اسلام میں بوڑھے کی کتنی اہمیت ہے کہ ایک بوڑھے کی سات افراد خدمت کر رہے ہیں ۔بنکاک سے رنگون کے لیے روانگی آٹھ بج کر سینتیس منٹ(۸:۳۷) پر بنکاک سے رنگون کے لیے روانہ ہوئے اورنو بج کر بارہ منٹ(9:12)پر مقامی وقت کے مطابق رنگون(برما ) پہنچے۔ برما میں یہ قانون ہے کہ باہر سے آنے والے افراد ایئر پورٹ پر فی کس تین سو امریکی ڈالر برما کی کرنسی میں تبدیل کرائیں اوراس رقم کو ملک میں خرچ کریں، ورنہ ایئر پورٹ سے نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی،چناں چہ بعض احباب کے پاس اتنی رقم کا انتظام نہیں تھا، ان کے لیے ایک رفیقِ سفر حاجی نثار احمد صاحب نے اپنی طرف سے ڈالرتبدیل کرائے اور اس طرح سارے احباب باہر نکل سکے۔ برما میں سرکاری اورغیرسرکاری محکموں اور مارکیٹوں وغیرہ میں کام کرنے والوں کی اکثریت مستورات کی ہے۔ ایئر پورٹ پر برما کے ایک مسلمان ٹریول ایجنٹ نے ایک خاتون افسر کو اندر بھیجا،تا کہ وہ حضرتِ اقدس دامت برکاتہم العالیہ اور احباب کے پاسپورٹ وغیرہ کی کارروائی کرے۔ قیام گاہ پہنچ کر اس پر حضرت نے سخت تنبیہ فرمائی اور فرمایا کہ کبھی بھی ایئر پورٹ کے اندر علماء کو لانے کے لیے کسی خاتون کو نہ بھیجا جائے۔ ہمیں تکلیف منظورتھی،اندر تاخیر ہو جاتی کوئی بات نہیں،لیکن یہ برداشت نہیں کہ کسی عورت کو ہمیں لانے کے لیے بھیجا جائے۔ ایئر پورٹ پر حضرت کے مو اعظ کے کارٹن روک دیے گئے،کیوں کہ صوبہ ارکان برما میں اسلامی تحریکات کی وجہ سے اسلامی لٹریچر پر سخت پابندی ہے،لیکن الحمد للہ! وہاں کے احباب کی کوششوں سے وہ مواعظ تین دن کے بعد حاصل کر لیے گئے۔ ایئر پورٹ پر مفتی نور محمد صاحب مد ظلہٗ خطیب جامع مسجدسورتی رنگون، جو کہ دارالعلوم کراچی سے