سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
ہیں اور اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا حصول معیتِ صادقین پر رکھا ہے یعنی اس نعمتِ عظمیٰ کا حصول راہِ تقویٰ میں سچے لوگوں کی صحبت پر ہے، اسی لیے ایمان کے بعد سب سے بڑی نعمت ایسے بزرگ کی صحبت ہے،جس سے تقویٰ اور ولایت حاصل ہوجائے۔ اہلِ تقویٰ کی کس قدر صحبت مطلوب ہے؟ تو علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس قدر اہلِ تقویٰ کی صحبت میں رہے کہ ان جیسا ہوجائے۔اور غوث الثقلین امام الاولیاء قدوۃ السالکین حضرت سید عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے علماء کی جماعت کو مخاطب کرکے فرمایا تھا کہ تحصیلِ علم کے بعد چھ مہینے کسی اللہ والے کی صحبت میں رہو اور پھر منبر پر بیٹھو، تو پھر تمہارا منبر منبر ہوگا اور تمہاری تقریر تقریر ہوگی ۔ اور مجدد ملت حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ چالیس دن کسی اللہ والے کے پاس رہ پڑو، ان شاء اللہ تقوے کی دولت حاصل ہوجائے گی۔ اور ایک مرتبہ ارشاد فرمایا : مرغی کے نیچے اکیس دنوں میں مردہ انڈوں میں جان پڑجاتی ہے، تو چالیس دنوں میں اللہ والوں کی صحبت سےمردہ روح میں زندگی پڑجاتی ہے۔مسلمانوں کے سب سے پہلے طبقے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ہی سے دین سیکھا، اس لیے تمام شرفوں پر شرفِ صحابیت سب سے فائق ہےاور صحابی کہلانا ہی بہت بڑے اعزاز کا باعث ہے، اس لیے صحبت کے ذریعےسیکھے ہوئے دین کے جو جواہرات مرتب ہوتے ہیں وہ غیر صحبت یافتہ میں نہیں پائے جاتے ۔حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایک نظر میں صحبت یافتہ عالم اور غیرصحبت یافتہ عالم میں فرق کرسکتا ہوں۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کسی دوسرے کی صحبت سے متأثر ہونے کی صلاحیت صرف انسان میں ودیت فرمائی ہے،کسی اور مخلوق میں نہیں ہے،اور یہ صلاحیت اس لیے دی ہے کہ انسان نیکوں کی صحبت سے نیک ہوجائے۔بندہ حضرت شیخ کی خدمت میں حضرت والا دامت برکاتہم سے بندہ ناچیز کا تعلق ارادت ومحبت 1980ء سے