سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
محبتِ الٰہی کے لیے شرط پھر فرمایا کہ تقویٰ یہ ہے کہ شبہ گناہ سے بھی بچو۔ پھر یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗۤ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں مرتدین کے مقابلے میں اپنے عاشقوں کی قوم پیدا کروں گا جن سے میں محبت کروں گا۔ یُّحِبُّہُمْسے معلوم ہوا کہاللہتعالیٰ ان سے محبت کرے گا، لیکن یہ کیسے معلوم ہو ،تو دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کی علامت بتا دییُحِبُّونَہجب کسی کو دیکھو کہ وہ مجھ سے محبت کر رہا ہے، تو یہ دلیل ہے کہ میں اس سے محبت کر رہا ہوں ؎ محبت دونوں عالم میں یہی جا کر پکار آئی جسے خود یار نے چاہا اسی کو یادِ یار آئی اور محبت وہ ہے جو اطاعت کے ساتھ ہو ، سنت کے مطابق ہو وہی مقبول ہے۔ جو سنت کے خلاف محبت کرے گا اللہ تعالیٰ کے یہاں وہ محبت قبول نہیں ، جیسے بخاری شریف کی حدیث ہے کہ عصر کی فرض نماز کے بعد کوئی نفل نہ پڑھے ۔ اب اگر کوئی نادانی ولاعلمی سے عصر کے بعد نفل پڑھ رہا ہے تو یہ محبت توکررہا ہے،لیکن سنت کے خلاف ہونے سے یہ محبت اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول نہیں ہے ۔ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللہُ؎ جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرے وہ نبی کے طریقے پہ محبت کرے تب محبت قبول ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسے پیارے ہیں کہ جو ان کی چلن چلے گا وہ بھی اللہ تعالیٰ کا پیارا بن جائے گا ۔ جو بندہ سنت کے مطابق اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت فرماتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں فرمایا: فَاذْکُرُوْنِیْۤ اَذْکُرْکُمْ؎ تم مجھے یاد کرو تو میں بھی تمہیں یاد کروں گا ۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرِ عظیم و حکیم الامت مجدد ملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ جن کا وعظ ملتِ ابراہیم ۱۹۲۰ ء میں اسی مسجد میں ہوا تھا ،وہ تفسیر بیان القرآن میں فرماتے ہیں کہ ------------------------------