سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
بنگال کے ایک عالم نے حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو ایک خط لکھا اور اس میں تحریرکیا کہ مجھے ایک مرض ہے کہ میں ہانستا( ہنستا )ہوں۔ تو مجلس میں ایک شخص نے کہا کہ یہ شخص بنگالی معلوم ہوتا ہے۔تو حضرت تھانویرحمۃ اللہ علیہ ناراض ہوئے اور فرمایا کہ تم نے اسے حقیر سمجھا، اپنے کلمے کی تجدید کرو اور دو رکعت توبہ پڑھو۔پھر حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے واقعہ سنایا کہ ایکمرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم کالے بہت ہو ، پھر فوراً تنبیہ ہوئی اور فرمایا کہ اے بلال!میں لیٹتا ہوں تم میرے اوپر چڑھو۔کس طرح ایک قریشی نے اپنی عزت خاک میں ملائی! لہٰذا بڑا اللہ والا وہ ہے جو مسلمان تو مسلمان،کسی جانور اور کافر کو بھی حقیر نہ سمجھے۔حضرت تھانویرحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب میں کھانا کھا چکتا ہوں،تو گھر والوں کو یہ نہیں کہتا کہ برتن اٹھا لو، بلکہ کہتا ہوں کہ برتن اٹھوا لیجیے،حالاں کہ اسی نے اٹھانے ہیں تاکہ تحقیر نہ ہو۔ اور فرماتے ہیں کہ اشرف علی اپنے کو ہر مسلمان سے کمتر سمجھتا ہے فی الحال اور کافر اور جانور سے کمتر سمجھتاہے فی المآل،لہٰذا کبر سے بچنے کے لیےروزانہ اسی جملے کو کہہ لیا کرو۔اور حضرت سید سلیمان ندویرحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر پڑھ لیا کرو ؎ ہم ایسے رہے یا کہ ویسے رہے وہاں دیکھنا ہے کہ کیسے رہے یاد رکھو ! غلام+ غلام تو ٹوٹل غلام ہی ہوگا۔اور غلام+ اللہ،تو اس غلام کی قیمت کہاں پہنچے گی! ظرف سے قیمت نہیں لگتی بلکہ مظروف سے لگتی ہے ۔ جاہل کو بھی جاہل مت کہو،کیوں کہ اس میں حقارت ہے، بلکہ غیر عالم کہو۔ میں نے یہ سبق اپنے مرشد پھو لپوریرحمۃ اللہ علیہ سے لیا ہے۔ وہ ہندوستان میں کفار کے ساتھ جو معاملہ ہوتا تو یوں فرماتے کہ غیر مسلمان سے یوں معاملہ کرتے ہیں۔منہ پر تعریف کرنے کا مسئلہ ارشاد فرمایا کہ حدیث شریف میں ہے کہ جو منہ پر تعریف