سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
نمازی بن جائے ۔ پھر فرمایا کہ حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو ان کے ایک مرید نے خط لکھا کہ حضرت میں نے جب سے داڑھی رکھی ہے تو لوگ مجھ پر ہنستے ہیں۔ تو حضرت نے جواب میں تحریر فرمایا کہ لوگوں کو ہنسنے دو، قیامت کے دن رونا نہیں پڑے گا ۔ اور تم بھی تو لوگ (مرد) ہو، لوگائی(عورت) تو نہیں ہو۔ پھر حضرت شیخ نے فرمایا، شعر ؎ ساری دنیا کی نگاہوں سے گرا ہے مجذوب تب کہیں جاکے ترے دل میں جگہ پائی ہےگناہوں پر اصرار کے معنیٰ ارشادفرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَافَعَلُوْا وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ؎ میرے خاص بندے گناہوں پر اصرار نہیں کرتے۔ اور اصرار کے کیا معنیٰ ہیں ؟ ایک ہے اصرارِ لغوی اور ایک ہے اصرارِ شرعی ۔ اصرارِ لغوی یہ ہے کہ جو بار بار گناہ کرے۔ اس کو لغت میں گناہوں پر اصرار کرنے والا کہتے ہیں لیکن اصرارِ شرعی یہ ہے کہ جو خطا پر قائم رہے اور توبہ نہ کرے ۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اصرارِ شرعی یہ ہے کہ اَلْاِقَامَۃُ عَلَی الْقَبِیْحِ بِدُوْنِ الْاِسْتِغْفَارِ وَالرُّ جُوْعِ بِالتَّوْبَۃِ؎ گناہ پر جمے رہنا بغیر استغفار و توبہ کے۔ اور جو شخص توبہ و استغفار کرلے اور رو رو کر معافی مانگ لے اور توبہ کرتے وقت توبہ توڑنے کا ارادہ نہ ہو پھر اس سے خواہ ہزاروں گناہ ہوجائیں تو شرعاً اصرار کرنے والوں میں نہیں ہے۔ صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ روایت نقل کرتے ہیں: مَا أَصَرَّ مَنِ اسْتَغْفَرَ وَإِنْ عَادَ فِی الْیَوْمِ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً؎ جس نے استغفار کرلیا، اپنے گناہوں پرنادم ہوکر معافی مانگ لی، وہ اصرار کرنے والوں ------------------------------