سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
دریافت کیا کہ تمہارے والد کا نام کیا ہے؟ اس نے کہا: ابراہیم بن ادہم ۔ کہا :تمہارے والد کہاں ہیں؟ اس نے کہا کہ وہ سلطنت چھوڑ کر جنگل میں چلے گئے اور ان کا کوئی علم نہیں۔ تو حضرت نے فرمایا کہ میں ہی تمہارا باپ ابراہیم بن ادہم ہوں۔یوں باپ بیٹا ایک دوسرے سے بغل گیر ہو کر دیر تک روتے رہے ۔ بتانا یہ ہے کہ اللہ والوں نے اللہ تعالیٰ کے لیے کیسی کیسی قربانیاں دی ہیں۔حضرت ابراہیم بن ادہم اور جبرئیل علیہ السلام کی ملاقات میرے مرشد شاہ ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ حضرت ابراہیم بن ادہم نیشاپور کے جنگل میں یادِ الٰہی میں مصروف تھے، تو اچانک دیکھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام جارہے ہیں ، حضرت ابراہیم بن ادہم نے ان سے پوچھا کہ بھائی جبرئیل! آپ ایسے کیسے پھر رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھیجا ہے کہ اس کے دوستوں کے ناموں کی فہرست بنا کر لاؤں ۔ تو حضرت ابراہیم بن ادہم نے فرمایا کہ جب آپ سب کے نام لکھ چکیں، تو آخر میں میرا نام بھی درج کرلینا۔ تو اس پرجبرئیل علیہ السلام نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ اس کے دوستوں کی فہرست میں سب سے پہلے آپ کا نام لکھوں ۔ حضرت شیخ فرمایا کرتے ہیں کہ ؎ جتنی جس کی قربانی اتنی خدا کی مہربانی حضرت جبرئیل علیہ السلام کی ملاقات غیر نبی سے ثابت ہے۔چناں چہ سورۂ مریم میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کی ملاقات حضرت مریم علیہاالسلام سے متعدد بار ہونے کا ذکر ہے ۔آغوشِ رحمتِ الٰہیہ کی دلسوز تمثیل وعظ کے آخرمیں حضرت والا نے یوں دعا فرمائی کہ اے اللہ تعالیٰ! اگر ہم اپنی نادانی سے،اپنی نالائقی سے، اپنے کمینہ پن سے آپ کے نا بننا چاہیں،تو بھی آپ ہمیں دوڑا کر اپنی آغوشِ رحمت میں لے لیجیے ، جیسے ماں اپنے چھوٹے بچے سے کہتی ہے کہ آجا میری