سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
ہوں، بڑی پُر بہار ہوتی ہے۔ میرے اشعار کیا ہیں!آہِ دل ہے،یہ فُغانِ اختر ہے۔مصائب سے چھٹکارا ارشاد فرمایا کہ جو لوگ دنیا کی کسی مصیبت میں گرفتارہوں، تو وہ مصیبتوں کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں گرفتار کرادیں یعنی دل کو آخرت کا غم لگائیں۔ یہ غم دنیا کے غموں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا کی طرح اژدھا بن کر نگل جائے گا اور یہ غم لینے کے لیے ہمارے پاس آؤ ؎ دردِ دل سیکھنا ہے اگر دوستو ! ساتھ میرے رہو پھر سکھائیں گےمرشد کا فیض ارشاد فرمایا کہ میں حضرت ہردوئی کے ساتھ ایک جگہ گیا، تو گلی میں مکانوں کے سامنے سبزہ وغیرہ لگا ہوا تھا۔ ایک مکان کے باغیچہ میں ہر شئے مرتب منظم تھی،جبکہ دوسرے مکان کا باغیچہ جیسے کوئی جھاڑ جھنگاڑ ہو،تو حضرت ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ نے رک کر احباب سے فرمایا کہ ان دونوں باغیچوں میں فرق اس لیے ہے کہ ایک کا مالی ہے اور ایک کا مالی نہیں ہے۔ یہی مثال مرشد کی ہے کہ وہ مرید کے دل سے نفس کی جھاڑیاں اکھاڑتا رہتا ہے اور اللہ کی محبت کا باغ لگاتا رہتا ہے، لیکن اس کی دو شرطیں ہیں:ایک یہ کہ مرید شیخ کو اپنا دل پیش کرےدوسری شرط یہ ہے کہ مرید اپنے نفس کا خون پیے اور اس کی مخالفت کرے۔نورِ تقویٰ ارشاد فرمایاکہراہِ تقویٰ میں غم اٹھاکر دیکھو،جتنا غم پہنچے گا اتنا ہی نور پیدا ہوگا۔ نفس اپنی طرف کش کرے تو تم مکش کرو،اگر اسی کشمکش میں موت آئے گی تو شہادت کی موت ہوگی ۔