سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
آتی ہے کہ ایسے شخص کو نبی کیوں بنایا کہ اپنے رب پر غصے ہو رہا ہے؟ انسان کی فطرت ہے کہ بُرائی کو جلد قبول کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کا دل کالا ہے اوران کے دل اور آنکھ میں بھی ظلمت ہے۔ اگر کسی اللہ والے کی غلامی کی ہوتی تو ایسی کفر کی بات نہ نکلتی۔ ایسےشخص سے محبت پر کفر بر خاتمے کا اندیشہ ہے۔حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے کیسی بے غبار تفسیر فرمائی جس سے عصمتِ نبی محفوظ رہی۔اس لیے کہا جاتا ہے کہ ایک من علم کے لیے دس من عقل چاہیے اور عقل میں بغیر ذکر کے اندھیرے ہوتے ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ قرآنِ مجید میں ہے کہیَذْکُرُوْنَ اللہَ قِیَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ؎ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ذکر کو فکر پر مقدم کیا ہے،کیوں کہ فکر میں جِلا بغیر ذکر کے پیدا نہیں ہوتی ۔اتباعِ اہلِ حق گوشۂ عافیت ارشاد فرمایا کہ اگر کسی جگہ دس گلاسوں میں پانی رکھا ہوا ہو جن میں نو گلاسوں کا پانی بالاتفاق ٹھیک ہے،لیکن دسویں گلاس پر اختلاف ہو ۔نوّےفیصداطباء اسے مضر صحت قرار دیں اور دس فیصد درست قرار دیں، تو عقل کا تقاضایہ ہے کہ نوگلاسوں سے استفادہ کرو۔ جب اہلِ حق کی جمہوریت ایسے شخص کی گمراہی پر متفق ہے جو انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اعتراض کرتا ہے، تو پھر ایسے شخص سے استفادہ کرنے کے پیچھے کیوں پڑے ہو ؟حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بےادب صرف اپنے کو گمراہ نہیں کرتا بلکہ آفاق کو آگ لگا دیتا ہے۔پھرحضرت والادامت برکاتہم نے ارشاد فرمایاکہ اس سلسلے میں حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی (رحمۃ اللہ علیہ) کی کتاب’’اختلافِ اُمت اور صراطِ مستقیم‘‘ پڑھو۔ فرمایاکہیہ مدلّل بھی ہے۔ ------------------------------