سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
پھر اس کا جواب دیا ہے !نورِ خدا’’خدا کا نور ‘‘ شہوت اور بُری خواہشات کے تقاضے نار ہیں،کیوں کہ یہ دوزخ کی آگ میں لے جائیں گے۔اس کا علاج کیا ہے؟فرماتے ہیں کہ بیرونی آگ تو پانی سے بجھ جاتی ہے لیکن اندر کی آگ کیسے بجھے گی؟ تو فرماتے ہیںکہ وہ نورِ خدا سے بجھے گی۔ تو اس کے حصول کا ایک طریقہ تو یہ رمضان المبارک ہے،کیوں کہ اس میں بھی نفس کمزور ہوجاتا ہے اور دوسرا اپنے نفس کو مارنا ہے اور نفس کو مارنا بُری خواہشات پر عمل نہ کرنا ہے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا کہ آپ کا دل ہشاش بشاش رہے گا۔ دشمن (نفس) جب کمزور ہوگا تو روح خوش ہوگی۔ اور رمضان المبارک کا موقع بہت اہم ہے،ایک خارجی دشمن شیطان تھا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمے لے لیا اور دوسرا داخلی دشمن نفس ہے،اسے تمہیں دبانا پڑے گا۔ بیس روزوں کے بعد یہ خودبخود مضمحل اور کمزور پڑجاتا ہے،اس لیے آخری عشرہ کو (عِتْقٌ مِّنَ النِّیْرَانِ )فرمایا ۔ نفس کو مارنا اور چت کرنا اور اس پر غالب رہنا اور اسے گناہ سے بچانا جنتی لوگوں کا کام ہے اور نفس کے تقاضوں پر عمل کرنا جہنمیوں کا کام ہے۔ نارِ شہوت گناہ گاروں کی صحبت سے بڑھتی ہے اورنورِ خدا اہل اللہ کے پاس ہوتا ہے،اس لیے بزرگانِ دین رمضان شریف اپنے بزرگوں کے پاس گزارتے تھے۔ بس مولانا جلال الدین رومی کی نصیحت یاد رکھوکہ نارِشہوت بس نورِ خدا سے ختم ہوسکتی ہے۔ اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ گناہ کی خواہش گناہ کرکے ختم کریں ،لیکن اس سے اور تشنگی بڑھتی ہے ۔مجالس بروزِہفتہ،2؍دسمبر2000ء حضرت والا کا عارفانہ کلام قاری محمد یعقوب صاحب جوکہ ساؤتھ افریقہ سے تشریف لائے تھے، انہوں نے حضرت والا کا عارفانہ کلام بڑے سوز ودرد سے پیش فرمایا۔ اس کا عنوان ہے ’’چند دن خونِ تمنا سے خدا مل جائےہے‘‘ پورا کلام ہدیۂ ناظرین کیا جاتا ہے ۔