سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
اہل اللہ کے ساتھ جڑنے کا نفع ارشا د فرمایا کہ حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ والوں کی صحبت سے اور ان سے جڑے رہنے سے اوّل تو بہت بڑے ولی اللہ ہو جاؤ گے لیکن اگر نفس کی نالائقی سے کسی سے گناہ نہیں چھوٹتے، تو بھی اللہ والوں کو نہ چھوڑو، ان کی صحبت میں پڑے رہو، اس کا یہ انعام ملے گا کہ مرتے وقت اللہ تعالیٰ اپنی مدد بھیجیں گے اور اپنی محبت کو غالب کر کے نفس کو مغلوب کرکے توبہ کی توفیق دے کر ایمان کے ساتھ اٹھا لیں گے۔ اگر کاملین میں سے نہ ہوئے تو تائبین میں سے ضرور ہو جاؤ گے اوریہ بھی بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ والوں کی صحبت کایہ ادنیٰ اثر ہے۔ایک اہم عمل ارشاد فرمایاکہ اگر کسی مجبوری سے کسی کے ذمہ حقوق العباد رہ گئے، مثلًا صاحبِ حق کا انتقال ہو گیا یا اس کا پتا نہیں کہ وہ کہاں ہے؟ اورتلاش کے بعد بھی اس کا پتا نہ ملا،اگراس کاپتا ہوتا تو جاکر اس کا حق ادا کردیتا یا اس سے معاف کرا لیتا، تو ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ جس بندے نے توبہ کر لی اور اپنے گناہوں پر نادم ہو گیا، تو اللہ تعالیٰ جس بندے کی توبہ قبول کر لیتے ہیں اور اس سے راضی ہو جاتے ہیں، تو جن کا حق اس کے ذمہ رہ جائے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان بندوں کا حق خود ادا کرے گا۔ ا س کی مثال یہ ہے کہ جیسے کسی بیٹے نے اپنے باپ کو ناراض کر رکھا تھا، لیکن پھر معافی مانگ کر باپ کو راضی کر لیا،لیکن اب اس کے قرض خواہ اپنا قرض مانگنے آگئے اور کہا کہ ہما را قرضہ دو ورنہ ہم پٹائی کر دیں گے،تو باپ کہتا ہے کہ خبردار! جو میرے بیٹے کو ہاتھ لگایا، جو تمہارا قرضہ ہے مجھ سے لو، میں خود اپنے بیٹے کا قرض ادا کروں گا۔ اسی طرح قیامت کے دن معاملہ ہو گا، اس کے لیے میں نے یہ دعا عربی زبان میں بنا لی کہ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَ تَکَفَّلْ بِرِضَا خُصُومِنَا اے اللہ تعالیٰ! ہمارے گناہ معاف فرما دیجیے اورہماری طرف سے اپنے ان بندوں کا حق ادا کرنے کی ذمہ داری قبول کر لیجیے جن کاکوئی حق ہمارے ذمہ رہ گیا ہو ۔