سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
وَ سُوْءِ الْقَضَاءِ کا معنیٰ اے اللہ تعالیٰ! اگر ماضی کی تقدیر بُری لکھی ہوئی ہے تو اس سے بچا لے اور بُری تقدیر کو اچھی تقدیر سے تبدیل فرما دیجیے۔ آپ خالق ہیں،آپ فیصلے پر حاکم ہیں، مخلوق آپ کے فیصلے کو نہیں بدل سکتی، لیکن آپ خود بدل سکتے ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اے خدا!آپ اپنے فیصلے پر حاکم ہیں،فیصلہ آپ پر حاکم نہیں ۔تو رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے مستقبل کو بھی بچایا کہ آیندہ کوئی بد قسمتی نہ پکڑلے اور ماضی میں کوئی فیصلہ ہمارے حق میں بُرا لکھا ہوا ہے، تو اس فیصلے کو اچھے فیصلے سے بدل دیجیے ۔ اب یہاں ایک علمی اشکال ہے کہ سوءِ قضاء میں قضا مصدر ہے جو معنیٰ میں اسم فاعل کے بھی ہوتا ہے اور اسم مفعول کے بھی ۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہاں قضاء بمعنیٰ مقضی اسم مفعول ہے۔یہاں نسبت الی القَضٰینہیں نسبت الی الْمُقْتَضٰی ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سوء کی نسبت بے ادبی ہے۔ اور چوتھی دعا ہے:وَ شَمَاتَۃِ الْأَعْدَاءِ کا معنیٰ اور کوئی حالت ایسی ہم پر نہ آئے جس سے دشمن کو ہم پر ہنسنے کا موقع ملے۔ (صبح اور شام تین تین دفعہ پڑھا جائے۔ )غیبت زنا سے بد تر ارشاد فرمایا کہ غیبت میں اچھے اچھے لوگ مبتلا ہیں اوراس کا گناہ زنا سے زیادہ ہے اَلْغِیْبَۃُ اَشَدُّ مِنَ الزِّنَا۔؎ غیبت زنا سے زیادہ بدتر ہے۔ صحابہ نے پوچھا کہ زنا سے بدتر کیوں ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زناسے توبہ کر لے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ لے تو معافی ہو جائے گی، جس کے ساتھ گناہ کیا ہے اس سے معافی مانگنا ضروری کیا جائز بھی نہیں۔ اگر بندوں سے معافی مانگنا ضروری ہوتا،تو اس میں ------------------------------