سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
علی الاعلان کی،چھپ کر اور رازداری سے نہیں کی،جانتا تھا کہ انبیاء علیہم السلام کو غیب کا علم نہیں ہوتا ،جیسا کہ تیمم کی آیت فَلَمۡ تَجِدُوۡا مَآءً فَتَیَمَّمُوۡا؎ کا شانِ نزول حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہار کا گم ہونا ہے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم تھا اور آپ کو معلوم تھا کہ ہار کہاں ہے،تو اُمت کو کیوں نہیں بتایا؟کیا اُمت کو پریشان کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جائز ہے؟تو تیمم کی آیت واضح طور پر اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم نہیں تھا۔داغِ حسرت حضرت نے اپنے پسندیدہ اشعار پڑھوائے ؎ داغِ حسرت سے دل سجائے ہیں تب کہیں جا کے ان کو پائے ہیں قلب میں جس کے جب وہ آئے ہیں اپنا عالم الگ سجائے ہیں ان حسینوں سے دل بچانے میں میں نے غم بھی بہت اٹھائے ہیں فرمایا کہ میں نے اپنی آبرو کو داؤ پر لگا کر یہ مصرعہ کہا ہے۔ اللہ کی محبت کے سامنے ہماری آبرو کچھ نہیں۔امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کو جب وہ بے ریش تھے، پیچھے بٹھلاتے تھے، انہوں نے شرم نہیں کی،کیوں کہ محبتِ الٰہی غالب تھی۔ تو اس شعر میں ہم نے بتلایا ہے کہ علماء اور مشایخ بھی غم اٹھاتے ہیں اور زیادہ اٹھاتے ہیں، کیوں کہ ان کا دل شفاف ہوتا ہے اور یہ زیادہ متأثر ہوتا ہے اور اسی غم اٹھانے میں ان کو اللہ ملتا ------------------------------