سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
پھر دوسرں کی اصلاح کی دعاکرے،صرف دوسروں کے لیے دعا کرنے میں مرض چھپا ہوا ہے وہ ہے،عجب (اپنے کو اچھا سمجھنا) ۔ حضرت والا نے دریا کے کنارے پر کھڑے کھڑے اللہ تعالیٰ پر فدا ہونے اور اللہ تعالیٰ کوخوش رکھنے پر اللہ تعالیٰ اپنے عاشقوں کو جو خوشی عطا فرماتے ہیں اورغیر اللہ پر مرنے والوں کو اس غیراللہ سے جو ظلمت اندھیرااور وبال ملتا ہے،اس کا فرق بیان فرمایااور دریا کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ دریا کو دیکھو اور خالقِ دریا کو سوچو ، رہو فرش پر دل ہوعرش پر،یہ غذا بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں ۔۱۔ پہلا فرق ارشاد فرمایا کہ جب بندہ حرام خوشیو ں کو قربان کرکے ہر وقت اللہ تعالیٰ کو خوش رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو غیر محدود خوشی عطا فرماتے ہیں۔چوں کہ اس غیرمحدود خوشی کا محل مومن کا قلب ہے،تو اس کو ایسی وسعت عطا فرماتے ہیں جس میں ہفت زمین وآسمان سما سکیں،کیوں کہ ہر شخص گھر اپنی مقدار پر بناتا ہےپھر وہ بندہ غموں اور کانٹوں میں بھی مسکراتا رہتا ہے ۔ مولانا جلال الدین رومی فرماتے ہیں ؎ آں یکہ در کنج مسجد مست و شاد آں یکہ در باغ ترش و نامراد ایک شخص مسجد کے کونے میں خوشی سے مست ہے اور دوسرا پھولوں میں رو رہا ہے۔ رونے والا پھول کی وجہ سے نہیں رو رہا، بلکہ اس کے دل میں غم ہے، اور جو کانٹوں میں مسکرا رہا ہے اس کے دل میں خوشی ہے،جبکہ غیراللہ پر مرنے والے کا دل تنگ کر دیا جاتا ہے،اسی کو مَعِیْشَۃً ضَنْکًا؎ کہا ہے۔ ان کے منہ میں کباب اور دل پر عذاب ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو خوش کرنے والوں کے منہ میں سوکھی روٹی ہے اور دل میں بریانی ہے۔ ------------------------------