سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
عالم کی خوشیاں اگر اس غم پر فدا ہو جائیں، تو اس غم کی عظمتوں کا حق ادا نہیں ہو سکتا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے راستے کا غم ہے ۔ یوسف علیہ السلام سے پوچھو کہ جب ان کو بادشاہِ مصر کی بیوی کی طرف سے دھمکی دی گئی کہ اگر گناہ نہیں کرو گے تو تمہیں قید خانہ میں ڈلوا دیا جائے گا۔تو عاشقِ حق کاجواب سنو ۔حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہرَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ؎ اے اللہ تعالیٰ!آپ کے راستے کا قید خانہ مجھے صرف حبیب نہیں، محبوب نہیں،احبّ ہے۔ اس پرمیں نے الٰہ آباد میں علمائے ندوہ کی موجودگی میں عرض کیاکہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی شانِ محبوبیت ثابت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اتنے پیارے ہیں،اتنے محبوب ہیں، اتنے احبّ ہیں کہ جن کے راستے کے قید خانے احبّ ہوتے ہیں ان کے راستےکے گلستاں کیسے ہوں گے؟ اس جملے پر علمائے ندوہ پھڑک گئے۔توبہ کی شرائط ارشاد فرمایا کہ توبہ کی چار شرطیں ہیں: ۱) گناہوں سے الگ ہو جاؤ، حالتِ گناہ میں توبہ قبول نہیں ہوتی ۔ گناہ کرتے رہو اور توبہ توبہ کہتے رہو تو ایسی توبہ قبول نہیں ۔یہ نہیں کہ لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّابِاللہِ پڑھتے جا رہے ہیں اور دیکھتے بھی جا رہے ہیں کہ ذرا دیکھو تو سہی ! کیسی ننگی ٹانگیں کیے ہوئے گھوم رہی ہیں۔لَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ!یہلَاحَوْلَ تو خود اس پر لَاحَوْلَ پڑھ رہا ہے ، اس لیے پہلی شرط یہ ہے کہ گناہ سے الگ ہو جاؤ ۔ ۲) اس گناہ پر ندامت ہو جائے ۔ ندامت یہ کہ اس گناہ پر دل کو تکلیف ہو کہ آہ میں نے یہ گناہ کیوں کیا؟ توبہ ندامت ہی کانام ہے اَلتَّوْبَۃُ ھِیَ النَّدَامَۃُ ۳) اوراس بات کا پختہ عزم ہو کہ میں دوبارہ یہ گناہ نہیں کروں گا ۔ ۴) کہ حقوق العباد اگر ذمہ ہوں تو واپس کرو ۔ کسی کا مال مارا ہو تو اس کو واپس کرو، اور کسی کا جانی حق ہو،اس کو بُرا بھلا کہا ہو ،تکلیف پہنچائی ہو، تو اس شخص سے معافی مانگو ۔؎ ------------------------------