سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
اسی سال سفرِِ کراچی میں بندہ ( جلیل احمدا خون عفی عنہ) کی ملاقات جناب محمدالیاس صاحب قریشی دہلوی سے ہوئی جو ہند وستان سے تشریف لائے ہوئے تھے انہوں نے ایک واقعہ سنایا اور فرمایا کہ میں اس واقعہ کا چشم دید گواہ ہوں۔ فرماتے ہیں کہ ۹۵۸اء میں حضرت مولانا شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ ا للہ علیہ ہمارے گھر واقع کوچہ مہر پرور دہلی تشریف لائے، ان کے ہمراہ حضرت حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم بھی تھے ۔ حضرت حکیم صاحب کے عنفوان شباب کا زمانہ تھا، شدید سردی کا موسم تھا، میری والدہ حیات تھیں اور وہ بھی بوڑھی تھیں، والد صاحب پہلے فوت ہو چکے تھے۔ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ ا للہ علیہ نے مجھ سے فرمایا کہ اپنی والدہ سے کہہ دیں کہ عشاء کے وقت ہی تہجد کے وضو کے لیے پانی گرم کر کے دے دیا کریں ،رات کو اٹھنے کی بالکل تکلیف نہ فرمائیں ، محمداختر خود انتظام کرے گا۔چناں چہ روزانہ لوہے کے ایک برتن میں پانی گرم کر کے دے دیا جاتا جسے حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم گہرے خاکی رنگ کے کمبل میں لپیٹتے اور اس کو اپنے پہلو میں رکھ لیتے اور اوپر سے لحاف اوڑھ لیتے تاکہ ان کے جسم اور لحاف کی گرمی سے پانی ٹھنڈا نہ ہو اور رات بھر اسی طرح اسے لیے ہوئے نہ معلوم کس طرح سوتے اور تہجد کے وقت جب حضرت شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ ا للہ علیہ اٹھتے تو پانی گرم ہوتا اور حکیم صاحب دامت برکاتہم اپنے شیخ کو وضو کراتے۔ جناب محمد الیاس صاحب قریشی فرماتے ہیں کہ کافی دن حضرت ہمارے گھر رہے اور میں روزانہ یہ منظر دیکھتا تھا اور مجھے بڑی حیرت ہوتی تھی، واقعی محبت میں وہ کرامت ہے جو ہر قسم کی طاقت دے دیتی ہے ۔ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اختر میرے پیچھے پیچھے ایسے لگا رہتا ہے جیسے دودھ پیتا بچہ ماں کے پیچھے پیچھے لگا رہتا ہے۔ حضرت اقدس دامت برکاتہم اپنے شیخ کے علوم و معارف اور ملفوظات کو بڑی محبت اور جانفشانی سے قلم بند فرماتے تھے۔چناں چہ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا کہ حکیم اختر میرے غامض و دقیق مضامین کو بھی قلم بند کر لیتے ہیں،چناں چہ حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب کے وہبی علوم آپ ہی کے ذریعہ منصّۂ