سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
کا علم ان کی پیٹھ پر لدا ہوا ہے، وہ نہ خود فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور نہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ جس طرح یہ ٹینکر چل نہیں سکتا جب تک اس کے انجن میں پیٹرول نہ ہو ۔اصلاح کے لیے مصلح کی ضرورت میرے شیخ ابرار الحق صا حب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ عالم بھی اپنی اصلاح میں دوسرے عالم کا محتاج ہے۔ جیسے ڈاکٹر ہزاروں مریضوں کے گردے کی پتھری نکال دیتا ہے،لیکن اپنے گردے کی پتھری خود نہیں نکال سکتا، اس کے لیے دوسرا ڈاکٹر آپریشن کے لیے آئے گا۔ تو عالم کو بھی اپنی اصلاح کے لیے کسی دوسرے مصلح کی صحبت کی ضرورت ہے ۔مغفرت کا راستہ دورانِ گفتگو ارشاد فرمایا کہ انسان کی زندگی ہر سانس اورہر لمحہ مجرم ہے ۔ میرے شیخ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ انسان کتنا ہی عبادت گزار اور کتنا ہی متقی ہو اللہ تعالیٰ کی نسبت سے اس کی ہر سانس مجرم ہے۔ اس کی دلیل یہ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت غیر محدود ہے اور ہماری عبادت محدود ہے، محدود عبادت غیر محدود عظیم الشان معبود کے حقوق کو ادا کر ہی نہیں سکتی ۔ اسی میں خیر ہے کہ ہر وقت اعترافِ قصور کر کے معافی ما نگتے رہو ، مغفرت کا یہی ایک راستہ ہے اور معافی میں دونوں مضمون پیش کرو کہ آپ کے حقوق میں جو ہم سے نالائقیاں ہوئیں ہم اعترافِ نالائقی کے ساتھ معافی مانگتے ہیں،کیوں کہ ہماری کوئی سانس ایسی نہیں جو صحیح ہو، جیسے اونٹ کے لیے کہتے ہیں کہ اونٹ رے اونٹ!تیری کو ن سی کل سیدھی ہے۔ پس اے اللہ تعالیٰ! ہماری کوئی حرکت صحیح نہیں ہے، لہٰذا ہم ہر سانس کا نا دمانہ اعتراف کرتے ہوئے معافی کے خواستگار ہیں۔ پس مجرمانہ سانس کو مستغفرانہ و تائبانہ بنالو،ان شاء اللہ بیڑا پار ہو جائے گا۔ اور دوسرا مضمون یہ کہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق میں جو کوتاہیاں ہو گئیں،تو جو زندہ ہیں ان سے معافی مانگو ، مالی حق ہے تو ادا کرو اور