سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
کو دیکھ کر اہلیہ نے شروع ہی میں خوشی سے اجازت دے دی تھی کہ آپ جب تک چاہیں شیخ کی خدمت میں رہیں ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا، ہماری طرف سے آپ پر کوئی پابندی نہیں۔حضرت فرماتے ہیں کہ وہ ہمیشہ دین میں میری معین رہیں اور ابتدا ہی سے مجھ سے کہا کہ ہم ہمیشہ آپ کاساتھ دیں گے جو کھلائیں گے کھا لیں گے، جو پہنائیں گے پہن لیں گے،اگر فاقہ کریں گے ہم بھی فاقہ کریں گے، آپ جنگل میں رہیں گے تو ہم بھی جنگل میں رہیں گے،آپ سے کبھی کوئی فرمایش اور مطالبہ نہیں کریں گے اور کبھی آپ کو پریشان نہیں کریں گے۔حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ انہوں نے اس عہد کو پورا کر دکھایا اور زندگی بھر کسی چیز کی فرمایش نہیں کی نہ زیور کی ، نہ کپڑے کی ، نہ مال کی ،دنیا کی محبت ان میں تھی ہی نہیں ، جانتی ہی نہ تھیں کہ دنیا کدھر رہتی ہے۔ جب گھر میں داخل ہوتا تو اکثر و بیشتر تلاوت کرتی ہوتیں۔ حضرت شیخ پھولپوری رحمۃ ا للہ علیہ نے حضرت والا کے لیے فرمایا تھا کہ یہ تو صاحبِ نسبت ہیں ہی لیکن ان کی گھر والی بھی صاحبِ نسبت ہے ۔ ۱۹۶۰ء میں جب حضرت مولانا شاہ عبد الغنی پھولپوری رحمۃ ا للہ علیہ نے پاکستان ہجرت کی تو آپ ساتھ آئے لیکن اپنی اہلیہ اور فرزند مولانامحمد مظہر میاں صاحب کو جو اس وقت بچے تھے ہندوستان میں چھوڑ آئے اور قلتِ وسائل کی وجہ سے ایک سال تک نہ بال بچوں کو پاکستان بلاسکےاور نہ خود جا سکے،یہ ایک سال حضرت پیرانی صاحبہ نے بڑے مجاہدے میں گزارا لیکن کبھی شکایت لکھ کر بھی نہیں بھیجی، بس ایک خط میں بچے کی شدید علالت کا تذکرہ کیا اور دعا کے لیے عرض کیا، واپسی کا مطالبہ اور شکایت پھر بھی نہ لکھی ؎ گزر گئی جو گزرنا تھی دل پہ پھر بھی مگر جو تیری مرضی کے بندے تھے لب ہلا نہ سکے حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک وہ اس دور کی رابعہ بصریہ تھیں اور ایک راز کی بات بتاتا ہوں کہ ان کے حالاتِ رفیعہ کی وجہ سے میں ان کاہمیشہ سے اتنا معتقد ہوں کہ ان کے وسیلہ سے اب بھی دعا کرتا رہتا ہوں، انتقال سے دو تین دن پہلے گھر کے افراد کو اور عیادت کے لیے آنے والی عورتوں کو کئی بار ان کے قریب ایسی خوشبو محسوس ہوئی جو زندگی