سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
فَاذْکُرُوْنِیْ بِالْاِطَاعَۃِمجھے یاد کرو میری اطاعت کے ساتھ اَذْکُرْکُمْ بِالْعِنَایَۃِ؎ ہم تم کو یاد کریں گے اپنی عنایت کے ساتھ ۔ ہم پر نسیان محال ہے، ہم تو چیونٹی کو بھی نہیں بھولتے ۔ ہم ہر ایک کو یاد رکھتے ہیں، لیکن نافرمانی کروگے تو ہم غضب اور عذاب سے تم کو یاد رکھیں گے اور اگر فرماں برداری کرو گے،تو اپنی عنایت و مہربانی سے یاد کریں گے۔ اس کے بعد فرماتے ہیںوَاشْکُرُوْا لِیْ میرا شکر بھی ادا کرو۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر کو شکر پر مقدم اس لیے کیا ہے کہ ذکر کا حاصل ہے منعم میں مشغول رہنا اور شکر کا حاصل ہے نعمت میں مشغول رہنا۔ اور منعم میں مشغول رہنے والا افضل ہے نعمت میں مشغول ہونے والے سے ، تو یہ ذاکر شاکر سے افضل ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ذکر کو شکر پر مقدم فرمایا۔ اور شکر کے معنیٰ یہ نہیں کہ صرف زبان سے شکر ادا کرے بلکہ اصلی شکر گزار بندہ وہ ہے جو گناہوں سے بچتا ہو، جیسے قرآنِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے۔وَلَقَدۡ نَصَرَکُمُ اللہُ بِبَدۡرٍ وَّ اَنۡتُمۡ اَذِلَّۃٌ ۚ فَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ؎ اے صحابہ ہم نے جنگِ بدر میں تمہاری مدد کی جبکہ تم قلیل تھے، کمزور تھے ہم نے اپنی مدد سے تمہیں فتح عطا فرمائی پس اب تم میری نافرمانی اور گناہ سے دور رہنا تاکہ تم اصلی شکر گزار ہوجاؤ۔ اس آیت میں تقویٰ کے بعد شکر کا ذکر ہے ۔ معلوم ہوا کہ اصلی شکر گناہوں سے بچنا ہے او ر جو چھپ چھپ کے گناہ کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہیں ہے ؎ جو کرتا ہے تو چھپ کے اہلِ جہاں سے کوئی دیکھتا ہے تجھے آسماں سےمسلمان کی عزت کے کام پھر حضرت نے فرمایا کہ حضرت مولانا شاہ عبد الغنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ مسلمان دو کام کرلے عزت سے رہے گا:۱۔ ایک یہ کہ داڑھی رکھ لے اور۲۔ دوسرا ------------------------------