سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
میری زندگی کا حاصل میری زیست کا سہارا تیرے عاشقوں میں جینا تیرے عاشقوں میں مرنا جس کے دل میں عاشقوں کے ساتھ جینے اور مرنے کا ذوق وشوق نہ ہو وہ ذوقِ نبوت سے دور ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ جاؤ، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو محبتِ الٰہی کی خوشبو سے معطر کرو، تاکہ وہ پھر پورے عالم میں اس خوشبو کو پھیلائیں ؎ مجھے کچھ خبر نہیں تھی تیرا درد کیا ہے یا رب تیرے عاشقوں سے سیکھا تیرے سنگ در پہ مرنا کسی اہلِ دل کی صحبت جو ملی کسی کو اخترؔ اسے آگیا ہے جینا اسے آگیا ہے مرنا اس آیتِ مبارکہ کے بارے میں آتا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجدِ نبوی میں تشریف لے گئے تو تین قسم کے لوگ تھے۔ ایک ذاکرین تھے جو نہایت خستہ حال تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو؟ تو کہا کہ ذکر کر رہے ہیں ۔ پوچھا: کس لیے؟ کہا کہ اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مبارک ہو اے صحابہ(رضی اللہ عنہم)! مجھے تمہارے ساتھ بیٹھنے کا حکم ہوا ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے اللہ تعالیٰ! تیرا شکر ہے کہ میری اُمت میں ایسے قیمتی لوگ پیدا فرمادیے جن کے ساتھ پیغمبر کو بیٹھنے کا حکم فرمایا۔عُشّاق کی مراد ذاتِ الٰہی یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ اور یُرِیْدُوْنَ وَجْھَہٗسے معلوم ہوا کہ نبوت کا فیض دو چیزوں پر موقوف ہے: ایک ذکرِ الٰہی اور دوسرااللہ تعالیٰ کی ذات کو مقصود بنانا ۔ اور یُرِیْدُوْنَ فعل مضارع ہے جو حال اور استقبال دونوں پر دلالت کرتا ہے کہ حالاً بھی اللہ تعالیٰ مراد ہو اور استقبالاً بھی اللہ تعالیٰ مراد ہو ۔اسی طرح نائبینِ رسول اور اہل اللہ کا فیض بھی مریدین و متبعین کو ان ہی دو باتوں کی وجہ سے ملے گا۔اگر کوئی سالک صورتوں پر مر رہا ہے، تو پھر اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کیسے مراد ہو سکتا ہے!