سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
اللہ والوں کا عروج و نزول حضرت پرتاب گڑھی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اس پر اولیائے کرام کااجماع ہے کہ اہل اللہ کے عروج سے ان کا نزول بہتر ہے،کیوں کہ اس سے مخلوق کو نفع زیادہ ہوتا ہےاور لوگ صاحبِ نسبت ہو جاتے ہیں،لیکن نزول وہ مراد ہے جو عروج کے بعد ہو۔ حضرت نے دورانِ گفتگو ہنس کر چند الفاظ کے لغوی معنیٰ بیان فرمائے کہ آفتاب کے معنیٰ ہیں’’آفتِ آب‘‘یعنی جو پانی کو خشک کردے۔ پھر فرمایا کہ پرچارکا معنیٰ چار پَر۔ پھر فرمایا کہ پراٹھا کا معنیٰ آٹھ پر جس روٹی کی آٹھ تہہ ہو۔ سُبْحَانَ رَبِیَّ الْعَظِیْم کا معنیٰ ہے کہ اے میرے عظیم الشان پالنے والے! جس کی ہرادائے تربیت مکمل اور مناسب تھی اور اس میں کوئی نقص اور کمی نہ تھی۔حضرت والا کی طرف سے احقر کی حوصلہ افزائی اور تحسین خصوصی مجلس کے بعد رات کا کھانا تناول کیا جاتا تھا۔ کھانے کے بعد حضرت والا دامت برکاتہم خانقاہ میں ہی چہل قدمی فرمالیتے اور احباب حضرت والا کی اجازت سے خانقاہ کے سامنے فٹ بال اسٹیڈیم میں چہل قدمی کرتے۔ اس دن رات کو بندہ بنگلہ دیش میں حضرت والادامت برکاتہم کے خلیفہ خاص حضرت مولانا فیض صاحب اور دیگر احباب کے ساتھ چہل قدمی پر نکلا،تو مولانا نے بندہ سے فرمایا کہ کل رات جب آپ کا بیان خانقاہ میں ہو رہا تھا (یعنی بندہ کا )،تو حضرت والا اپنے کمرے میں بڑے جوش میں تھے اور آپ کے بیان پر بہت خوش ہو رہے تھے اور ارشاد فرمایا کہ اس طرح مضامین کا آنا دلیلِ مناسبت، دلیلِ محبت اور دلیلِ تقویٰ ہے اور کچھ دیر بعدفرمایا کہ دلیلِ حافظہ ہے۔بندے نے حضرت والادامت برکاتہم کے اس حسنِ ظن پر اللہ تعالیٰ کا شکرادا کیا اور حضرت والا کی تلقین کردہ یہ مسنون دعا پڑھی: اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ بِنِعْمَتِہٖ تَتِمُّ الصَّالِحَاتُ؎ ------------------------------