سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
حضرت مولانا شاہ فضل الرحمٰن صاحب گنج مراد آبادی نے فرمایا کہ سائبیریا میں ایک چڑیا ہے جس کا نام ’قاز ‘ہے یہ چڑیا سردیوں میں سائبیریا میں انڈے دے کر ہندوستان چلی جاتی ہے اور وہیں سے توجہ ڈال کر انڈوں کو سیتی ہے اور اس کی گرمی سے بچے نکل آتے ہیں۔ جب جانور کی توجہ میں یہ اثر ہے تو اللہ والوں کی توجہ میں کیا اثر ہو گا ۔سنت توجہ یہ واقعہ عرض کر کے انہو ں نے حضرت شیخ سے توجہ کی درخواست کی۔ تو حضرت نے فرمایا کہ میں نے بھی اپنے شیخ حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب سے توجہ کی درخواست کی تھی تو انہوں نے فرمایا کہ دعا کرتا ہوں جو طریقِ سنت ہے اور اسی لیے معروف توجہ سے افضل ہے کیوں کہ طریقِ نبوت ہے اور سنت ہے جوکہ راہِ جنت ہے، اس لیے دعا کرتا ہوں۔ اس لیے کہ دعا ایک سانس میں مخلوق کو خالق سے ملا دیتی ہے۔اس میں توجہ بھی خود بخود ہو جاتی ہے۔ پھر فرمایاکہ اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ رنگون میں لوگ چاہ رہے تھے ورنہ ہم اس کرم کے قابل نہیں، بلکہ کرم بھی ان کے کرم کی وجہ سے ہے ،شعر ؎ آپ چاہیں ہمیں یہ کرم آپ کا ورنہ ہم چاہنے کے تو قابل نہیںشراب کے معنیٰ ارشاد فرمایا کہیہاں پر شراب کا مرض بہت ہے اس لیے میں آج سورتی مسجد میں دو شرابیوں کی توبہ کا واقعہ بیان کروں گا۔ پھر ہنس کر فرمایا کہ شراب میں اضافت مقلوبی ہے۔ اصل لفظ ہے آبِ شر یعنی شر والا پانی، جس کو پی کر شر آتا ہے۔ جس طرح پیشاب اصل میں آبِ پیش تھا آگے کا پانی۔ اسی طرح شبنم اصل میں نِم شب تھا، جس طرح لنگوٹ اصل میں اوٹ لنگ تھا، کثرتِ استعمال کی وجہ سے لنگوٹ ہو گیا۔ اسی طرح پاجامہ دراصل جامئہ پا تھا یعنی پاؤں کا لباس، اسی طرح ناخدا خدائے ناؤ تھا یعنی کشتی کامالک۔ اور پیخانہ پئے خانہ تھا یعنی گھر کا پچھلا حصہ کیوں کہ بیت الخلاء گھر کے پچھلے