سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
محبوب ربّ کائنات سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک وسیع میدان میں تشریف فرما ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ریتلی مٹی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ہمارے حضرت والا مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم بھی حاضر ہیں۔ پھر احقر نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہایت حزن و ملال کے ساتھ حضرت والا دامت برکاتہم سے ارشاد فرما رہے ہیں: ’’اختر! تجھے لوگوں نے پہچانا نہیں ، اختر !لوگوں نے تیری قدر نہیں کی ۔‘‘ احقر نے خواب ہی میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ یہ جملہ ارشاد فرمایا اور پھر توقف کے بعد چوتھی اور پانچویں دفعہ یہ ہی ایک جملہ نہایت درد و رقت سے ارشاد فرمایا اس کے بعد احقر کی آنکھ کھلی تو احقر زارو قطار رو دیا اس وقت جنوبی افریقہ میں رات کا ایک بج رہا تھا اور پاکستان میں صبح کے ۴ ، ۵ بج رہے تھے لیکن احقر نے پھر بھی یہ خواب حضرت اقدس شاہ فیروز بن عبداللہ صاحب دامت برکاتہم کو فون پر سنایا۔ یہ ایک بدیہی بات ہے کہ جس میں حضرت والا کی قدرو عظمت کماحقہ نہ تھی اور جس کی اندھی آنکھیں حضرت والا کے عالی مرتبے کے ادراک سے کور تھیں ایسی ہی محروم آنکھوں کو اس خواب کے ذریعے تنبیہ کی گئی،اللہ تعالیٰ حضرت والا کی قدر کماحقہ کرنے کی ہم سب کو توفیق کاملہ عطا فرمائے ؎ بعد مدت کے ہوئی اہل محبت کی شناخت خاک سمجھا تھا جسے لعل بدخشاں نکلادوسری بشارت ۱۱؍اپریل ۲۰۰۶ء بمطابق ۱۲؍ربیع الاول۱۴۲۷ھ احقر محمد عمران الحق نے فجر کی نماز سے قبل ہاتف غیبی کو پکارتے ہوئے سناکہ ’’ہم نے تمہارے شیخ کو قطب وابدال نہیں بلکہ غوث کا اعلیٰ مقام دیا ہے۔‘‘ اور جب یہ بات سنی تو دل میں یہ بات آئی کہ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر