سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اللہ کا فضل اور رحمت اور مشیت جب تک شامل نہ ہوتو دل پاک نہیں ہوتا، لہٰذا ان تینوں کے واسطے سے دعا کیا کرو۔کبھی تو حق نظر نہیں آتا یعنی حق بات ہی نظر نہیں آتی، کبھی نظر آتا ہے عمل نہیں کرتا اورکبھی عمل کرتا ہے تو قبول نہیں ہوتا۔ تو دروازہ کتنا ہی حسین کیوں نہ ہو،اصل تو دینے والا ہے ۔ انبیا ء علیہم السلام اور اولیائے کرام ہدایت کے دروازے ہیں اور دینے والےاللہ تعالیٰ ہے، لیکن دروازے کی توہین کرنا یا دروازے سے دور ہونا یہ دروازے والے کی توہین کرنا اور اس سے دور ہونا ہے اور محروم ہونا ہے ۔پھر حضرت والا نے آہ بھر کر فرمایا کہ آپ کا فضل بھی آپ کے فضل ہی سے مل سکتا ہے اور آپ کی مشیت بھی آپ کی مشیت ہی سے مل سکتی ہے۔اہلِ ذکر سے مراد ارشاد فرمایا کہ قرآنِ مجید میں ارشادِ ربّانی ہے فَسۡـَٔلُوۡۤا اَہۡلَ الذِّکۡرِ اِنۡ کُنۡتُمۡ لَا تَعۡلَمُوۡنَ ؎ ترجمہ: کہ اہلِ ذکر سے پوچھو اگر تمہیں علم نہ ہو ۔اور اہلِ ذکر سے مراد علماء ہیں کہ اگر تم لَا تَعۡلَمُوۡنَ ہوتو یَعْلَمُوْنَ سے پوچھو۔ اہلِ علم کو اہلِ ذکر سے کیوں تعبیر کیا ؟تاکہ علماء ذکرِ الٰہی سے غافل نہ ہوں ۔تقدیرِ الٰہی کا مطلب ارشاد فرمایا کہ حضرت شاہ ابرارالحق رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ تقدیر نام ہے علمِ الٰہی کا کہ انسان جو اچھائی یا برائی اپنے ارادے سے کرنے والا ہوتا ہے ، تواللہ تعالیٰ اپنے علم کے مطابق اسے لکھ دیتے ہیں ۔مشیتِ الٰہی کا نام تقدیر نہیں ہے۔مجالس بروزِ منگل،7؍نومبر2000ء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک ادا قرآنِ مجید نے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک ادا کا ذکر کرتے ہوئے ------------------------------