سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
کے شروع ہونے میں باقی تھے۔ حضرت والا نے دریافت فرمایا کہ ظہر کی نماز میں کتنا وقت باقی ہے؟ تو ہم نے عرض کیا کہ تقریباً پندرہ منٹ ۔ تو حضرت نے فرمایا کہ نمازِ ظہر پڑھ کر جہاز میں سوار ہوں گے،کیوں کہ کراچی پہنچنے تک ظہر کا وقت ختم ہوجائے گا۔ ادھر تقریباً تمام سواریاں سوائے حضرت والا اور رفقاء کے جہاز میں سوار ہوچکے تھے۔ روانگی سے چھ یا سات منٹ پہلے ایئر پورٹ کے افسران دوڑتے ہوئے آئے اور کہا کہ آپ لوگ جہاز میں سوار ہوجائیں ورنہ جہاز کا دروازہ بند ہوجائےگا۔تو حضرت والا نے فرمایاکہ کوئی بات نہیں، اگر ہم نہ جا سکے تو کوئی فکر کی بات نہیں، ساری زمین اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کا گھر ہے، ہم ڈھاکہ میں اور رہ لیں گے ،دین کا اور کام ہوجائےگا۔ افسران نے بڑی منت وزاری کی لیکن آپ نے فرمایا کہ ہم نمازِ ظہر پڑھے بغیر سوار نہیں ہوں گے۔ آخر جہاز کا عملہ مجبور ہوگیااور انہیں انتظار کرنا پڑا ، ادھر جوں ہی ظہر کا وقت داخل ہوا حضرت والا نے خود جماعت کرائی۔ پورے اہتمام اور سنت کے مطابق نماز پڑھائی، حالاں کہ حضرت والا کی عام عادت یہ ہے کہ کسی ساتھی سے نماز پڑھواتے ہیں، لیکن اس دن خلافِ عادت خود نماز پڑھائی اور کسی ساتھی سے نہیں پڑھوائی کہ کہیں وہ ماحول کے دباؤ اور عجلت میں خلافِ سنت نماز نہ پڑھادے۔ نماز کے بعد پھر اطمینان سے جہاز پر سوار ہوئے۔ جہاز کا عملہ اور سارے سوار تختِ معرفت کے سلطان اور ان کے غلاموں کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ اسی موقع کے لیے تائب صاحب نے یہ شعر کہا ہے ؎ غنائے قلب کا عالم تو دیکھو نظاروں نے ہمیں دیکھا ٹھہر کےکراچی ایئر پورٹ پر ڈھاکہ سے تقریباً۴ گھنٹے کا سفر کرکے عصر کے وقت کراچی پہنچے، سارا سفرانڈیا پر سے ہوا۔ سفر کے دوران راجستھان کے لق و دق صحرا پر سے بھی گزرنا ہوا۔ جہاز جس کی پرواز تقریباً آٹھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ تھی،ایک گھنٹہ تک اس صحرا پر پرواز کرتا رہا۔ نیچے کا منظر کافی حد تک واضح نظر آرہا تھا، درخت نام کی کوئی چیز نظر نہ پڑی، ہر طرف