سفر نامہ ڈھاکہ و رنگون |
ہم نوٹ : |
|
نعمتیں ابدی تو ہیں ازلی نہیں ہیں۔ازل کی تجلیات سے جنت بھی محروم ہے، تاکہ کوئی اس کا ہمسر نہ ہوجائے۔ چوںکہ وہ وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَد ہے اور دنیا کی شراب (مراد دنیا کی نعمتیں) نہ ازلی ہے نہ ابدی بلکہ بہت گھٹیا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا لَوْکَانَتِ الدُّنْیَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللہِ جَنَاحَ بَعُوْضَۃٍ مَّا سَقٰی کَافِرًا مِّنْہَا شَرْبَۃً؎ کہ پوری دنیا کی قدر وقیمت اللہ کے ہاں اگر مچھر کے پر برابر بھی ہوتی تو کسی کا فر کو ایک قطرہ پانی بھی نہ ملتا۔علمِ لدنّی ارشاد فرمایا کہ!’’ لوحِ محفوظت پیشنایٔ یار‘‘ جن اہل اللہ کا تزکیہ ہوچکا ہے ان کا علم بھی مزکٰی ہوتا ہے اور نفس کی ظلمت سے پاک ہوتا ہے، ورنہ جن علماء کا تزکیہ نہیں ہواہوتا ان کے علم میں نفس کی ظلمت کی آمیزش ہوتی ہے ؎ جرعہ خاک آمیز چوں مجنوں کند صاف گر باشد ندانم چوں کند (مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ) جب خاک آمیز قطرہ (مرادگنا ہ) تجھے مست کررہا ہے، تو جب صاف ہوجائے گا تو میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کا کیا اثر ہوگا ۔اہل اللہ کے پاس جانے کا مقصد اہل اللہ کے پاس کمیات کے لیے نہ جائے، کیوں کہ کمیات میں فرق نہیں ہوتا، وہ بھی اتنی ہی فرض نماز کی رکعتیں پڑھتے ہیں جتنی عام مسلمان پڑھتے ہیں، لیکن کیفیات میں فرق ہے۔اہل اللہ جب سجدہ کرتے ہیں تو اپنا جگر رکھ دیتے ہیں اور اپنی روح کی صورتِ مثالیہ کو رکوع سجود کرتے دیکھتے ہیں،لہٰذا اہل اللہ کے پاس کیفیاتِ احسانیہ ------------------------------