حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
(تم مجھے کہہ رہے ہو کہ) اگر آپ ٹیڑھے ہو گئے تو ہم آپ کو سیدھا کر دیں گے جیسے اَوزار سے تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے۔ پھر فرمایا: اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے ایسے لوگوں میں (امیر) بنا یا کہ میں اگر ٹیڑھا ہو جائوں تو وہ مجھے سیدھا کر دیں۔1 حضرت ابوقَبِیْل کہتے ہیں: حضرت معاویہ بن ابی سفیان ؓ جمعہ کے دن منبر پر چڑھے اور اپنے خطبہ میں فرمایا: یہ اجتماعی مال ہمارا ہے، اور خراج کا مال اور لڑے بغیر ملنے والا مالِ غنیمت بھی ہمارا ہے، جسے چاہیں گے دیں گے اور جسے چاہیں گے نہیں دیں گے۔ اس پر کسی نے کچھ نہیں کہا۔ اگلے جمعہ کو بھی انھوں نے (خطبہ میں) یہی بات کہی، پھر کسی نے کچھ نہیںکہا۔ جب تیسرا جمعہ آیا تو انھوں نے خطبہ میں پھر وہی بات کہی تو حاضرینِ مسجد میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا: ہر گز نہیں،یہ (اجتماعی) مال ہمارا ہے، اور یہ خِراج کا مال اور مالِ غنیمت ہمارا ہے، لہٰذا جو ہمارے اور اس کے درمیان حائل ہوگا ہم اپنی تلواروں سے اس کو اللہ کے فیصلہ کی طرف لے جائیں گے۔ حضرت معاویہ (منبر سے) نیچے اُتر آئے اور اس آدمی کو بلانے کے لیے پیغام بھیج دیا۔ (اور جب وہ آگیا تو) اسے اندر بلا لیا۔ لوگ کہنے لگے: یہ آدمی تو ہلاک ہو گیا۔ پھر لوگ اندر گئے تو انھوں نے دیکھا کہ وہ آدمی تو حضرت معاویہ کے ساتھ تخت پر بیٹھا ہوا ہے۔ حضرت معاویہ نے لوگوں سے کہا: اس آدمی نے مجھے زندہ کردیا، اللہ اسے زندہ رکھے۔ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میرے بعد ایسے امیر ہوں گے کہ اگر وہ کوئی (غلط) بات کہیں گے توکوئی ان کی تردید نہ کر سکے گا۔ وہ آگ میں ایک دوسرے پر ایسے اندھا دُھند گریں گے جیسے (کسی درخت کے اوپر سے) بندر ایک دوسرے پر چھلانگ لگاتے ہیں۔ چناںچہ میں نے پہلے جمعہ کو یہ (غلط) بات (قصداً) کہی تھی۔ کسی نے میری تردید نہیں کی، جس سے مجھے ڈر ہوا کہ کہیں میں (آگ میں گرنے والے) ان امیروں میں سے نہ ہوں۔ پھر میں نے دوسرے جمعہ کو وہی بات دوبارہ کہی تو پھر کسی نے میری تردید نہ کی۔ اس پر میں نے اپنے دل میں کہا: میں تو ضرور ان ہی امیروں میں سے ہو ں۔ پھر میں نے تیسرے جمعہ کو وہی بات تیسری مرتبہ کہی تو اس آدمی نے کھڑے ہو کر میری تردید کی۔ اس طرح اس نے مجھے زندہ کر دیا، اللہ تعالیٰ اسے زندہ رکھے۔1 حضرت خالد بن حکیم بن حِزام ؓ کہتے ہیں: حضرت ابو عبیدہ ؓ ملکِ شام کے گورنر تھے۔ انھوں نے ایک مقامی ذِمی (کافر) کو (جزیہ نہ دینے پر) سزا دی۔ حضرت خالد (بن الولید ؓ) نے کھڑے ہو کر حضرت ابو عبیدہ سے (سزا دینے کے بارے میں) بات کی۔ لوگوں نے حضرت خالد سے کہا: آپ نے تو امیر کو ناراض کر دیا۔ انھوں نے کہا: میرا ارادہ تو انھیں ناراض کرنے کا نہیں تھا، بلکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں ایک حدیث سنی تھی وہ حدیث انھیں بتانا چاہتا تھا۔ اور وہ یہ ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب ان لوگوں کو ہو گا جو دنیا میں لوگوں کو سب سے