حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں حضرت سعد بن عبادہ اور حضرت سعد بن معاذ سے مشورہ کر کے بتاتا ہوں۔ (آپ نے جا کر ان دونوں حضرات سے مشورہ کیا) ان دونوں نے کہا: نہیں، یہ نہیں ہو سکتا۔ اللہ کی قسم! ہم تو زمانۂ جاہلیت میں کبھی ایسی ذلّت والی بات پر راضی نہیں ہوئے تو اب جب کہ اللہ نے ہمیں اسلام سے نواز دیا ہے تو اس ذلت والی بات پر ہم کیسے راضی ہو سکتے ہیں۔ حضور ﷺ نے واپس آ کر حارث کو یہ جواب بتایا۔ اس نے کہا: اے محمد! آپ نے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ!) بد عہدی کی۔2 طبرانی نے حضرت ابو ہریرہ ؓ سے نقل کیا ہے کہ حارث غَطفانی نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا: ہمیں مدینہ کی آدھی کھجوریں دے دو۔ حضور ﷺ نے فرمایا: سعد نامی لوگوں سے مشورہ کر کے بتاتا ہوں۔ چناںچہ آپ نے حضرت سعد بن معاذ، حضرت سعد بن عبادہ، حضرت سعد بن الربیع، حضرت سعد بن خیثمہ اور حضرت سعد بن مسعود ؓ کو بلا کر فرمایا: مجھے معلوم ہے سارے عرب کے لوگ تم کو ایک کمان سے تیر مار رہے ہیں، یعنی وہ سب تمہارے خلاف متحد ہو چکے ہیں، اور حارث تم سے مدینہ کی آدھی کھجوریں مانگ رہا ہے۔ تو اگر تم چاہو تو اس سال اسے آدھی کھجوریں دے دو، آیندہ تم دیکھ لینا۔ ان حضرات نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا یہ آسمان سے وحی آئی ہے؟ پھر تو اس کے آگے سرِ تسلیم خم ہے، یایہ آپ کی اپنی رائے ہے تو ہم آپ کی رائے پر عمل کریں گے، لیکن اگر آپ ہم پر شفقت کی وجہ سے یہ فرما رہے ہیں تو اللہ کی قسم! آپ دیکھ ہی چکے ہیں کہ ہم اور یہ برابر ہیں۔ یہ ہم سے ایک کھجور بھی زبردستی نہیں لے سکتے، ہاں خرید کر یا مہمان بن کر لے سکتے ہیں۔ (ان حضرات سے) حضور ﷺ نے فرمایا: ہاں! میں تو شفقت کی وجہ سے کہہ رہا تھا۔ (اور پھر حارث سے کہا:) تم سن رہے ہو کہ یہ حضرات کیا کہہ رہے ہیں؟ حارث نے کہا: اے محمد! آپ نے ( معاذاللہ!) بد عہدی کی ہے۔1 حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں کہ حضورِ اَقدس ﷺ مسلمانوں کے اس طرح کے امور کے بارے میں رات کے وقت حضرت ابو بکر ؓ سے (مشورہ کے لیے) گفتگو فرماتے اور میں بھی آپ کے ساتھ ہوتا۔2 حضرت ابو بکر ؓ کا اہل الرّائے سے مشورہ کرنا حضرت قاسم ؓ فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو کوئی ایسا مسئلہ پیش آتا جس میں وہ اہل الرائے اور اہلِ فقہ سے مشورہ کرنا چاہتے تو مہاجرین واَنصار میں سے کچھ حضرات کو بلا لیتے اور حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت معاذ بن جبل، حضرت اُبی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت ؓ کو بھی بلا تے۔ یہ سب حضرات حضرت ابو بکر کے زمانۂ خلافت میں فتویٰ دیا کرتے تھے اور لوگ بھی ان ہی حضرات سے مسائل پوچھا کرتے تھے۔ حضرت ابو بکر ؓ کے زمانے میں یہی ترتیب رہی۔ ان کے بعد حضرت عمر خلیفہ بنے تو وہ بھی ان ہی حضرات کو (مشورہ کے