حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
آپ نے سرخ یمنی دھاری دار چادر سر پر باندھی ہوئی تھی اور اس کا ایک کنارہ منہ پر ڈالا ہوا تھا۔ جب حضورﷺ نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے فتحِ مکہ سے سرفراز فرمایا ہے تو حضورﷺ نے اللہ کے سامنے عاجزی ظاہر کرنے کے لیے اپنا سر جھکا لیا یہاں تک کہ آپ کی ڈاڑھی کجاوے کے درمیانی حصے کو لگ رہی تھی۔4 حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن میں حضورﷺ کے ساتھ بازار گیا۔ حضور ﷺ کپڑا بیچنے والوں کے پاس بیٹھ گئے اور چار درہم میں ایک شلوار خریدی۔ بازار والوں نے ایک (سونا چاندی) تولنے والا رکھا ہوا تھا، حضورﷺ نے اس سے فرمایا: تولو اور جھکتا ہوا تولو۔ حضور ﷺ نے وہ شلوار لے لی۔ میں نے حضورﷺ سے شلوار لے کر اٹھانی چاہی۔ حضور ﷺ نے فرمایا: چیز کا مالک خود اسے اٹھانے کا زیادہ حق دار ہوتا ہے، ہاں اگر وہ مالک اتنا کمزور ہو کہ اپنی چیز کو اُٹھا نہ سکتا ہو تو پھر اس کا مسلمان بھائی اس کی مدد کر دے۔ میں نے پوچھا: یا رسول اللہ! آپ یہ شلوار پہنیں گے؟ حضورﷺ نے فرمایا: ہاں دن رات سفر و حضر میں پہنوں گا، کیوںکہ مجھے ستر ڈھانکنے کا حکم دیا گیا ہے اور مجھے اس سے زیادہ ستر ڈھانکنے والی کوئی چیز نہ ملی۔1 دوسری روایت میں حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے تولنے والے سے فرمایا: تولو اور جھکتا ہوا تولو۔ اس تولنے والے نے کہا: میں نے یہ بات کسی اور سے نہیں سنی۔ میں نے اسے کہا کہ تیرے ہلاک ہونے اور تیرے دین کے بگاڑ کے لیے یہ کافی ہے کہ تو اپنے نبی کو نہیں پہچانتا۔ یہ سن کر اس نے ترازو وہیں پھینکی اور کود کر اٹھا اور حضورﷺ کے ہاتھ کو لے کر اسے بوسہ دینا چاہا۔ حضورﷺ نے اس سے اپنا ہاتھ پیچھے کھینچ لیا اور فرمایا: یہ کیا ہے؟ ایسے تو عجم کے لوگ اپنے بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں اور میں تو بادشاہ نہیں ہوں، میں تو آپ لوگوں میں سے ہی ایک آدمی ہوں۔ چناںچہ اس نے جھکتا ہوا تولا اور اپنے تولنے کی اُجرت لی۔2نبی کریم ﷺ کے صحابہؓ کی تواضع حضرت اسلم ؓکہتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطّاب ؓ اُونٹ پر بیٹھ کر ملکِ شام تشریف لائے تو لوگ اس بارے میں آپس میں باتیں کرنے لگے (کہ امیر المؤمنین کو گھوڑے پر سفر کرنا چاہیے تھا اونٹ پر نہیں کرنا چاہیے تھا وغیرہ وغیرہ۔ اس پر) حضرت عمر نے فرمایا: ان لوگوں کی نگاہ ایسے انسانوں کی سواری کی طرف جا رہی ہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ (اس سے شام کے کفار مراد ہیں)۔3 حضرت ہِشام ؓکہتے ہیں: میں نے دیکھا کہ ایک دفعہ حضرت عمر بن خطابؓ کا ایک عورت پر گزر ہوا جو عَصِیْدہ گھونٹ رہی تھی۔ (عَصِیْدہ وہ آٹا ہے جسے گھی ڈال کر پکایا جائے) حضرت عمر نے اس سے کہا: عَصِیْدہ کو اس طرح نہیں گھونٹا جاتا۔