حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حصین ؓ ان کے پاس آئے اور لوگوں کی موجودگی میں ان سے ملے اور فرمایا: کیا آپ جانتے ہیں کہ میں آپ کے پاس کیوں آیا ہوں؟ حضرت حَکَم نے کہا: (آپ ہی بتائیں) آپ کیوں آئے ہیں؟ حضرت عمران نے کہا: کیا آپ کو یاد ہے کہ ایک آدمی سے اس کے امیر نے کہاتھا کہ اپنے آپ کو آگ میں پھینک دو۔ (وہ آدمی تو آگ کی طرف چل دیا تھا لیکن دوسرے) لوگوں نے جلدی سے اسے پکڑ کر آگ میں چھلانگ لگانے سے روک دیا تھا؟ یہ سارا واقعہ حضور ﷺ کو بتایا گیا تھا تو آپ نے فرمایاتھا: اگر یہ آدمی آگ میں گر جاتا تو یہ آدمی بھی اور اُسے حکم دینے والا امیر بھی دونوں دوزخ میں جاتے۔ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی صورت میں کسی کی بات ماننی جائز نہیں ہے۔ حضرت حکم نے کہا: ہاں (یاد ہے)۔ حضرت عمران نے کہا: میں تو تمہیں صرف یہ حدیث یاد دلانا چاہتا تھا۔1 …٭ ٭ ٭…خُلَفَا اور اُمرَا کا احترام کرنا اور اُن کے احکامات کی تعمیل کرنا حضرت ابنِ عباس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت خالد بن ولید بن مُغیرہ مخزومی کو ایک لشکر کا امیر بنا کر بھیجا۔ اس جماعت میں اُن کے ساتھ حضرت عمار بن یاسر ؓ بھی تھے۔ چناںچہ یہ لوگ (مدینہ منوّرہ سے) روانہ ہوئے اور رات کے آخری حصے میں انھوں نے اس قوم کے قریب جا کر پڑائو ڈالا جس پر صبح حملہ کرنا تھا۔ کسی مخبر نے جا کر اس قوم کو صحابۂ کرام کے آنے کی خبر دی جس پر وہ لوگ بھاگ گئے اور محفوظ مقام پر پہنچ گئے، لیکن اس قوم کا ایک آدمی جو خود اور اس کے گھر والے مسلمان ہو چکے تھے وہیں ٹھہرا رہا۔ اس نے اپنے گھر والوں سے کہا تو انھوں نے بھی سامانِ سفر باندھ لیا۔ اس نے گھر والوں سے کہا: میرے واپس آنے تک تم لوگ یہاں ہی ٹھہرو۔ پھر وہ حضرت عمارکے پاس آیا اور اس نے کہا: اے ابو الیَقْظَان! یعنی اے بیدار مغز آدمی! میں اور میرے گھر والے مسلمان ہوچکے ہیں، تو کیا اگرمیں یہاں ٹھہرا رہوں تو میرا یہ اِسلام مجھے کام دے گا، کیوںکہ میری قوم والوں نے تو جب آپ لوگوں کا سنا تو وہ بھاگ گئے؟ حضرت عمار نے اس سے کہا: تم ٹھہرے رہو تمہیں اَمن ہے۔ چناںچہ یہ آدمی اور اس کے گھر والے اپنی جگہ واپس آگئے۔