حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نماز پڑھائی اور نماز میں بہت روئے۔ زیادہ رونے کی وجہ سے ان کا قرآن لوگوں کو سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ نے لوگوں سے کہا: عمر کے لیے ہلاکت ہو! اس نے مسلمانوں کے کتنے بچے مار ڈالے (کہ عمر نے اصول یہ بنا یا کہ دودھ چھڑانے کے بعد بچے کو وظیفہ ملے گا اس وجہ سے نہ معلوم کتنے بچوں کا دودھ قبل از وقت چھڑایا گیا ہوگا اور بچوں کو تکلیف ہوئی ہوگی) پھر اپنے منادی کو حکم دیا کہ وہ یہ اعلان کر ے کہ خبردار! تم اپنے بچوں کا جلدی دودھ نہ چھڑاؤ، کیوںکہ ہم ہر دودھ پیتے مسلمان بچے کا بھی وظیفہ مقرر کر یں گے۔ اور تمام علاقوں میں بھی (اپنے گورنر وں کو) یہ لکھو ا بھیجاکہ ہم ہر دودھ پیتے مسلمان بچے کا بھی وظیفہ مقرر کریں گے ۔1بیت المال میں سے اپنے اوپر اور اپنے رشتہ داروں پر خرچ کر نے میں احتیاط بر تنا حضرت عمر ؓ نے فرمایا: میں اللہ کے مال کو (یعنی مسلمانوں کے اجتماعی مال کو جو بیت المال میں ہوتا ہے) اپنے لیے یتیم کے مال کی طرح سمجھتا ہوں۔ اگر مجھے ضرورت نہ ہو تو میں اس کے استعما ل سے بچتا ہوں، اور اگر مجھے ضرورت ہو تو ضرورت کے مطابق مناسب مقدار میں اس سے لیتا ہوں۔ دوسری روایت میںیہ ہے کہ میں اللہ کے مال کو اپنے لیے یتیم کے مال کی طرح سمجھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے یتیم کے مال کے بارے میں قرآن مجید میں فرمایا ہے: {وَمَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ ج وَمَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ}2 اور جو شخص مال دار ہو سو وہ تو اپنے کو بالکل بچائے، اور جو شخص حاجت مند ہو تو وہ مناسب مقدار سے کھالے۔3 حضرت عروہ ؓ کہتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے فر ما یا: اس اجتما عی ما ل میں سے مجھے صرف اتنا لینا جا ئز ہے جتنا میں اپنی ذاتی کما ئی میں سے خرچ کرتا (یہ نہیں کہ بیت المال میں بے احتیا طی اور فضول خرچی کروں)۔1 حضرت عمران ؓ کہتے ہیں: جب حضرت عمر ؓ کو ضرورت پیش آتی تو بیت المال کے نگران کے پاس آتے اور اس سے ادھار لے لیتے۔ بعض دفعہ آ پ تنگ دست ہوتے (اور قرض واپس کرنے کا وقت آجاتا) تو بیت الما ل کا نگران آکر ان سے قرض ادا کر نے کا تقاضا کرتا اور ان کے پیچھے پڑجاتا۔ آخر حضرت عمر قرض کی ادائیگی کی کہیں سے کوئی صورت بناتے۔ بعض دفعہ ایسا ہو تا کہ آپ کو وظیفہ ملتا تو اس سے قرض ادا کر تے۔2 حضرت ابراہیم ؓ کہتے ہیں: حضرت عمر بن خطّاب ؓ زمانۂ خلافت میں بھی تجارت کیا کر تے تھے۔ چناںچہ ایک مرتبہ آپ نے ایک تجارتی قافلہ ملکِ شام بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ نے چار ہزار قرض لینے کے لیے حضر ت عبد الرحمن بن عوف ؓ کے پاس آدمی بھیجا۔ حضرت عبد الرحمن نے اس قاصد سے کہا: جا کر امیر المؤ منین سے کہہ دو کہ وہ اب بیت المال سے چار