حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
انھوں نے مجھے آنکھ بھر کر دیکھا بھی لیکن میرے سلام کا جواب نہ دیا۔ میں امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطّابؓ کی خدمت میں گیا اور میں نے دو دفعہ یہ کہا: اے امیر المؤمنین! کیا اسلام میں کو ئی نئی چیز پیدا ہوگئی ہے؟ حضرت عمر نے پوچھا: کیا ہوا؟ میں نے کہا: اور تو کوئی بات نہیںالبتہ یہ بات ہے کہ میں ابھی مسجد میں حضرت عثمان کے پاس سے گزرا میں نے ان کو سلام کیا، انھوں نے مجھے آنکھ بھر کر دیکھا بھی لیکن میرے سلام کا جواب نہ دیا۔ حضرت عمر نے آدمی بھیج کر حضرت عثمان کو بلوایا اور (جب حضرت عثمان آگئے تو) ان سے فرمایا: آپ نے اپنے بھائی (سعد) کے سلام کا جواب کیوں نہیں دیا؟ حضرت عثمان نے کہا: میں نے تو ایسا نہیں کیا۔ میں نے کہا: آپ نے کیا ہے اور بات اتنی بڑھی کہ انھوں نے اپنی بات پر قسم کھالی اور میں نے اپنی بات پر قسم کھالی۔ تھوڑی دیر کے بعد حضرت عثما ن کو یاد آگیا تو انھوں نے فرمایا: أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَأَتُوْبُ إِلَیْہِ۔ آپ میرے پاس سے ابھی گزرے تھے اس وقت میں اس بات کے بارے میں سوچ رہا تھا جو میں نے حضور ﷺ سے سنی تھی۔ اور وہ بات ایسی ہے کہ جب بھی مجھے یاد آتی ہے تو میری نگاہ پر اور میرے دل پر ایک پردہ پڑ جاتا ہے (جس کی وجہ سے نہ کچھ نظر آتا ہے اور نہ کچھ سمجھ آتا ہے)۔ میں نے کہا: میں آپ کو وہ بات بتاؤں؟ ایک مرتبہ حضورﷺ نے دعا کے ابتدائی حصے کا تذکرہ فرمایا (کہ دعا کے شروع میں اسے پڑھنا چاہیے)۔ اتنے میں ایک دیہاتی آیا اور حضورﷺ اس سے باتوں میں مشغول ہوگئے۔ پھر حضورﷺ کھڑے ہوگئے (اور چل پڑے)۔ میں بھی آپ کے پیچھے چل دیا۔ پھر مجھے خطرہ ہوا کہ میرے پہنچنے سے پہلے کہیں حضورﷺ گھر کے اندر نہ چلے جائیں، اس لیے میں نے زمین پر پاؤں زور سے مارے۔ اس پرحضورﷺ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: یہ کون ہے؟ ابو اسحاق ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ حضور ﷺ نے فرمایا: کیا بات ہے؟ میں نے کہا: اور تو کوئی بات نہیں ہے، بس یہ بات ہے کہ آپ نے دعاکے ابتدائی حصہ کا تذکرہ کیا تھا پھر یہ دیہاتی آگیا تھا اور آپ اس سے باتوں میں مشغول ہوگئے تھے۔ حضورﷺ نے فرمایا: وہاں وہ مچھلی والے (حضرت یونس ؑ) کی دعا ہے جو انھوں نے مچھلی کے پیٹ میں مانگی تھی:لَا إِلٰہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ إِنِّيْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْنَ۔ان کلمات کے ساتھ جو مسلمان بھی دعا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی دعا ضرور قبول فرمائیں گے۔1سلام بھیجنا حضرت ابو البَخْترَِی ؓ کہتے ہیں کہ حضرت اشعث بن قیس اور حضرت جریر بن عبد اللہ بَجَلی ؓ حضرت سلمان فارسیؓ سے ملنے آئے اور شہرِ مدائن کے ایک کنارے میں ان کی جھگی کے اندر گئے۔ اندر جاکر انھیں سلام کیا اور یہ دعائیہ کلمات کہے: حَیَّاکَ اللّٰہُ!(اللہ تعالیٰ آپ کو زندہ رکھے) پھر ان دونوں نے پوچھا: کیا آپ ہی سلمان فارسی ہیں؟ حضرت سلمان نے کہا: