حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کا) لشکر واپس آگیا۔ (حضرت عمر ؓ نے ان کی جگہ پر کام کرنے والا لشکر ابھی بھیجا نہیں تھا اس لیے) حضرت عمر ان سے ناراض ہوئے اور انھیں خوب دھمکایا اور یہ سب حضور ﷺ کے صحابہ تھے۔ تو انھوں نے کہا: اے عمر! آپ تو ہمیں بھول گئے اور حضور ﷺ نے ہمارے بارے میں آپ کو یہ حکم دیا تھا کہ باری باری لشکر بھیجتے رہنا ، آپ نے اس پر عمل نہیںکیا۔1 جو تکلیف عام مسلمانوں پر آئے اس میں امیر کا مسلمانوں کی رعایت کرنا حضرت ابو موسیٰ ؓکہتے ہیں:جب امیر المؤمنین (حضرت عمر ؓ) نے یہ سنا کہ شام میں لوگ طاعون میں مبتلا ہو رہے ہیں ، تو انھوں نے حضرت ابو عبیدہ بن جرّ اح ؓکو یہ خط لکھا: مجھے ایک کام میں تمہاری ضرورت پیش آگئی ہے، میں تمہارے بغیر اس کام کو نہیں کرسکتا۔ اس لیے میں تمہیں قسم دے کر کہتا ہوں اگر تمہیں میرا یہ خط رات کو ملے تو صبح ہونے سے پہلے، اور اگر دن میں ملے توشام ہونے سے پہلے تم سوار ہو کر میری طرف چل پڑو۔ حضرت ابو عبیدہ نے (خط پڑھ کر) کہا: امیر المؤمنین کو جو ضرورت پیش آئی ہے میں اسے سمجھ گیا۔ جو آدمی اب دنیا میں رہنے والا نہیں ہے وہ اسے باقی رکھنا چاہتے ہیں۔ (یعنی حضرت عمر ؓ چاہتے ہیںکہ میں طاعون کی وبا والا علاقہ چھوڑ کر مدینہ چلا جاؤں اور اس طرح موت سے بچ جاؤں، لیکن میں موت سے بچنے والا نہیں ہوں) حضرت ابو عبیدہ نے حضرت عمر کو جواب میں یہ لکھا کہ میں مسلمانوں کے ایک لشکر میں ہوں، جان بچانے کے لیے میں انھیں چھوڑ کر جانے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ اور جو ضرورت آپ کو پیش آئی ہے میں اسے سمجھ گیا ہوں۔ آپ اسے باقی رکھنا چاہتے ہیں جو اب دنیا میں باقی رہنے والا نہیں ہے۔ لہٰذا جب میرا یہ خط آپ کی خدمت میں پہنچ جائے تو آپ مجھے اپنی قسم کے پورا کرنے سے معاف فرما دیں اور مجھے یہاں ہی ٹھہرنے کی اجازت دے دیں۔ جب حضرت عمر نے ان کا خط پڑھا تو ان کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں او ر رونے لگے تو حاضرینِ مجلس نے کہا: کیاحضرت ابو عبیدہ کا انتقال ہوگیا؟ حضرت عمرنے فرمایا: نہیں، لیکن یوں سمجھو کہ ہوگیا۔ پھرحضرت عمر نے حضرت ابو عبیدہ کو خط لکھا کہ اُردن کا سارا علاقہ وبا سے متاثر ہوچکا ہے اور جابیہ شہر وبا سے محفوظ ہے اس لیے آپ مسلمانوں کو لے کر وہاں چلے جائیں۔ حضرت ابو عبیدہ نے یہ خط پڑھ کر فرمایا: امیر المؤمنین کی یہ بات تو ہم ضرور مانیں گے۔ حضرت ابو موسیٰ کہتے ہیںکہ حضرت ابو عبیدہ نے مجھے حکم دیا کہ میں سوار ہوکر لوگوں کو ان کی قیام گاہوں میں ٹھہراؤں۔ اتنے میں میری بیوی کو بھی طاعون ہوگیا۔ میں (حضرت ابو عبیدہ کو بتانے کے لیے) ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت ابو عبیدہ خود جا کر لوگوں کو اُن کی قیام گاہوں میں ٹھہرانے لگے، پھرخود ان کو طاعون ہوگیا جس میں ان کا انتقال ہوگیا اور پھر طاعون کی وبا ختم ہوگئی۔ حضرت ابو الْمُوجّہ ؓ کہتے ہیں: حضرت ابو عبیدہ کے ساتھ چھتیس ہزار کا لشکر تھا جن میں سے صرف چھ ہزار زندہ بچے