حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت اَصبغ بن نُباتہ ؓ کہتے ہیں: میں حضرت علی بن ابی طالب ؓ کے ساتھ بازار گیا۔ آپ نے دیکھا کہ بازار والے اپنی جگہ سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ بازار والے اپنی جگہ سے آگے بڑھ گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا: اپنی جگہ بڑھا لینے کا انھیں کوئی حق نہیں ہے۔ مسلمانوں کا بازار نمازیوں کے نماز پڑھنے کی جگہ یعنی مسجد کی طرح ہوتاہے، لہٰذاجس جگہ کاکوئی مالک نہیں ہے وہاں پہلے آکر جو قبضہ کرلے گا وہ جگہ اس دن اسی کی ہوگی۔ ہاں وہ خود اسے چھوڑ کر کہیں اور چلاجائے تو اس کی مرضی۔2 ایک یہودی کے ساتھ حضرت علی ؓ کا قصہ جلد اول صفحہ ۲۹۲ پر صحابۂ کرام کے ان اخلاق واعمال کے قصوں میں گزر چکا ہے جن کی وجہ سے لوگوں کو ہدایت ملتی تھی۔حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ کا عدل وانصاف حضرت ابنِ عمر ؓ خیبر کے متعلق لمبی حدیث بیان کرتے ہیں، اس میں یہ مضمون بھی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن رواحہ ؓ ہر سال اہلِ خیبر کے پاس جا کر درختوں پر لگی ہوئی کھجوروں اور بیلوں پر لگے ہوئے انگوروں کا اندازہ لگاتے کہ یہ کتنے ہیں؟ پھر جتنے پھل کا ان کو اندازہ ہوتا اس کے آدھے پھل کی ان پر ذمہ داری ڈال دیتے کہ اتنے کا آدھا پھل تمہیں دینا ہوگا۔ خیبر والوں نے حضور ﷺ سے ان کے اندازہ لگانے میں سختی کرنے کی شکایت کی اور وہ لوگ ان کو رشوت دینے لگے تو انھوں نے کہا: اے اللہ کے دشمنو! مجھے حرام کھلاتے ہو؟ اللہ کی قسم! میں تمہارے پاس اس آدمی کی طرف سے آیا ہوں جو مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے، اور تم لوگ مجھے بندروں اور خنزیروں سے بھی زیادہ برے لگتے ہو، لیکن تمہاری نفرت اور حضور ﷺ کی محبت مجھے تمہارے ساتھ ناانصافی کرنے پر آمادہ نہیںکرسکتی۔ ان لوگوں نے کہا:اسی انصاف کی برکت سے زمین آسمان قائم ہیں۔1حضرت مقداد بن اسود ؓ کا عدل وانصاف حضرت حارث بن سُوَیْد ؓ فرماتے ہیں: حضرت مقداد بن اسود ؓ ایک لشکر میں گئے ہوئے تھے۔ دشمن نے ان کا محاصرہ کرلیا۔ لشکر کے امیر نے حکم دیا کہ کوئی بھی اپنی سواری چَرانے کے لیے لے کر نہ جائے۔ ایک آدمی کو امیر کے اس حکم کا پتہ نہ چلا، وہ اپنی سواری لے کر چلا گیا جس پر امیر نے اسے مارا۔ وہ امیر کے پاس سے واپس آکر کہنے لگا: جو سلوک آج میرے ساتھ ہوا ہے ایسا میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ حضرت مقداد اس آدمی کے پاس سے گزرے تو اس سے پوچھا: تمہیں کیاہوا؟ اس نے اپنا قصہ سنایا۔ اس پر حضرت مقداد نے تلوار گلے میں ڈالی اور اس کے ساتھ چل پڑے اور امیر کے پاس پہنچ کر اس سے کہا: (آپ نے اسے بلا وجہ مارا ہے اس لیے) آپ اسے اپنی جان سے بدلہ دلوائیں۔ وہ امیر بدلہ دینے کے لیے تیار