حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۲۔ آپ راتوں کو خوب عبادت کرنے والے اور صبح سحری کے وقت (اللہ کے سامنے) بہت زیادہ رونے والے تھے۔ موت کے آنے کے بہت سے راستے ہیں۔ ۳۔ اور کاش! میں جان لیتی کہ کیا میں اور میرے حبیب حضور (ﷺ) کسی گھر میں کبھی اکٹھے ہو سکیں گے؟ یہ (محبت بھرے اشعار) سن کر حضرت عمر ؓ بیٹھ کر رونے لگے اور بڑی دیر تک روتے رہے۔ آخر انھوں نے اس عورت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اس بڑھیا نے کہا: کون ہے؟ انھوں نے کہا: عمر بن خطّاب۔ اس بڑھیا نے کہا: مجھے عمر سے کیا واسطہ؟ اور عمر اس وقت یہاں کس وجہ سے آئے ہیں؟ حضرت عمر نے کہا: اللہ تم پر رحم فرمائے! تم دروازہ کھولو، تمہا رے لیے کوئی ایسی خطرے کی بات نہیں ہے۔ چناںچہ اس بڑھیا نے دروازہ کھولا۔ حضرت عمر اندر گئے اور فرمایا: ابھی تم جو اشعار پڑھ رہی تھی ذرا مجھے دوبارہ سنانا۔ چناںچہ اس نے وہ اشعار دوبارہ حضرت عمر کے سامنے پڑھے۔ جب وہ آخری شعر پر پہنچی توحضرت عمر نے اس سے کہا: تم نے آخری شعر میں اپنا اور حضورﷺ کا تذکرہ کیا ہے، کسی طرح تم مجھے بھی اپنے دونوں کے ساتھ شامل کرلو۔ اس نے یہ شعر پڑھا: وَعُمَرُ فَاغْفِرْ لَہٗ یَا غَفَّارُ یعنی اے غفار! عمر کی بھی مغفرت فرما۔ اس پر حضرت عمر ؓ خوش ہوئے اور واپس آگئے۔1 حضرت عاصم بن محمد ؓ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں: جب بھی حضرت ابنِ عمر ؓ حضورﷺ کا تذکرہ کرتے تو ایک دم بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑتے۔2 حضرت مثنیٰ بن سعید ذارع ؓ کہتے ہیں: میںنے حضرت انس بن مالک ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں ہر رات اپنے حبیبﷺ کو خواب میں دیکھتا ہوں۔ اور یہ فرما کر رونے لگ پڑے۔3حضورﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے کو صحابۂ کرامؓ کا مارنا حضرت کعب بن علقمہ ؓ کہتے ہیں: حضرت غرفہ بن حارث کندی ؓ حضورﷺ کے صحبت یافتہ صحابی ہیں۔ انھوںنے سنا کہ ایک نصرانی حضورﷺ کو برا بھلا کہہ رہا ہے تو انھوں نے اسے ایسا مارا کہ اس کی ناک ٹوٹ گئی۔ یہ معاملہ حضرت عمرو بن العاصؓ کے سامنے پیش ہوا۔ حضرت عمرو نے حضرت غرفہ سے فرمایا: ہم تو ان سے امن دینے کا معاہدہ کر چکے ہیں۔ حضرت غرفہ نے کہا: اللہ کی پناہ! یہ لوگ حضورﷺ کو برا بھلا کہیں اور ہم ان کے معاہدے کا پھر بھی لحاظ کریں؟ ہم