حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
والد کے دوست کا اکرام کرنا حضرت ابنِ عمرؓ جب مکہ مکرّمہ جاتے تو اپنے ساتھ ایک گدھا بھی رکھتے۔ جب اونٹنی پر سفر کرتے کرتے اکتا جاتے تو آرام کرنے کے لیے اس پر بیٹھ جاتے اورایک پگڑی بھی ساتھ لے جاتے جسے (بوقتِ ضرورت) سر پر باندھ لیتے۔ ایک دن وہ اس گدھے پر سوار ہو کر جا رہے تھے کہ ایک دیہاتی ان کے پاس سے گزرا۔ حضرت ابنِ عمر نے اس سے پوچھا کہ کیا تم فلاں ابنِ فلاں نہیں ہو؟ اس نے کہا: ہاں میں وہی ہوں۔ حضرت ابنِ عمر نے اسے اپنا وہ گدھا دے دیا اور فرمایا: اس پر سوار ہو جا۔ اور پگڑی بھی اسے دے دی اور فرمایا: اس سے اپنا سر باندھ لینا۔ حضرت ابنِ عمر کے ایک ساتھی نے ان سے کہا: آپ جس گدھے پر آرام کیا کرتے تھے وہ بھی اسے دے دیا اور جس پگڑی سے اپنا سر باندھا کرتے تھے وہ بھی اسے دے دی۔ اللہ آپ کی مغفرت فرمائے! (آپ نے ایسا کیوں کیا؟) حضرت ابنِ عمر نے فرمایا: میں نے نبی کریمﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ نیکیوں میں سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کے انتقال کے بعد اس کے محبت وتعلق والوں سے اچھا سلوک کرے۔ اس دیہاتی کے والد (میرے والد) حضرت عمرؓ کے محبوب دوست تھے۔2 ’’اَلْأَدَبُ الْمُفْرَدُ‘‘ کی روایت میں اس طرح سے ہے کہ حضرت ابنِ عمرؓ سے ان کے ایک ساتھی کہا: کیا اس دیہاتی کو دو درہم دینے کافی نہیں تھے؟ حضرت ابنِ عمر نے فرمایا: حضور ﷺ نے فرمایا ہے کہ اپنے والد کے دوستوں سے اچھا سلوک کرو اور ان سے تعلقات ختم نہ کرو، نہیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے نور کو بجھا دیں گے۔1 حضرت ابو اُسید ساعدیؓ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا: یارسول اللہ! کیا میرے والدین کے انتقال کے بعد کوئی ایسا کام ہے جس کے کرنے سے میں والدین کے ساتھ نیکی کرنے والا شمار ہو جاؤں؟ حضورﷺ نے فرمایا: ہاں! ان دونوں کے لیے دعا کرنا، استغفار کرنا، اور ان کے جانے کے بعد ان کے وعدے پورے کرنا اور والدین کے ذریعہ سے جو رشتہ داری بنتی ہے اس کا خیال رکھنا اور ان کے دوستوں کا اکرام کرنا۔2مسلمان کی دعوت قبول کرنا حضرت زِیاد بن اَنعم افریقی ؓکہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت معاویہؓ کے زمانۂ خلافت میں ایک غزوہ میں سمندر کا سفر کر رہے تھے کہ ہماری کشتی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی کشتی سے جا ملی۔ جب ہمارا دوپہر کا کھانا آگیا تو ہم نے انھیں (کھانے کے لیے) بلا بھیجا۔ اس پر حضرت ابو ایوب ہمارے پاس آئے اور فرمایا: تم نے مجھے بلایا ہے لیکن میں روزے سے ہوں، پھر بھی میں تمہاری دعوت ضرور قبول کروںگا، کیوںکہ میں نے حضورﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ مسلمان کے اپنے بھائی پر چھ حق واجب ہیں اگر ان میں سے ایک بھی کام چھوڑے گا تو وہ اپنے بھائی کا حقِ واجب چھوڑے گا: جب اس سے ملے تو