حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ابنِ سعد نے حضرت ابنِ عباس ؓ سے یہی حدیث ایک اور سند سے نقل کی ہے، اس میں یہ مضمون ہے کہ میں نے حضرت عمر ؓ سے کہا: آپ کو جنت کی بشارت ہو۔ آپ حضور ﷺ کی صحبت میں رہے اور بڑے لمبے عرصہ تک اُن کی صحبت میں رہے۔ اور پھر آپ مسلمانوں کے امیر بنائے گئے تو آپ نے مسلمانوں کو خوب قوت پہنچائی اور امانت صحیح طور سے ادا کی۔ حضرت عمر نے فرمایا: تم نے مجھے جنت کی بشارت دی ہے، تو اس اللہ کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے! اگر ساری دنیا اور جو کچھ اس میں ہے وہ سب مجھے مل جائے تو اس وقت میرے سامنے آخرت کا جو دہشت ناک منظر ہے، اس سے بچنے کے لیے میں وہ سب کچھ یہ جاننے سے پہلے ہی فدیہ میں دے دوں کہ میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ تم نے مسلمانوں کے امیر بننے کا بھی ذکر کیا ہے، تواللہ کی قسم! میں یہ چاہتا ہوں کہ امارت برابر سرابر رہے، نہ ثواب ملے اور نہ سزا۔ اور تم نے حضور ﷺ کی صحبت کا بھی ذکر کیا ہے تو یہ ہے اُمید کی چیز۔2 اور ابنِ سعد کی ایک روایت میں یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: مجھے بٹھاؤ۔ جب بیٹھ گئے تو حضرت ابنِ عباس ؓ سے فرمایا: اپنی بات دوبارہ کہو۔ انھوں نے دوبارہ کہی تو فرمایا: اللہ سے ملاقات کے دن، یعنی قیامت کے دن کیا تم اللہ کے سامنے ان تمام باتوں کی گواہی دے دوگے؟ حضرت ابنِ عباس نے عرض کیا: جی ہاں۔ اس سے حضرت عمر خوش ہوگئے اور ان کو یہ بات بہت پسند آئی۔1 حضرت ابنِ عمر ؓ فرماتے ہیں: مرض الوفات میں حضرت عمر ؓ کا سر میری ران پر رکھا ہوا تھا۔ تو مجھ سے انھوں نے کہا: میرا سر زمین پر رکھ دو۔ میں نے کہا: آپ کا سر میری ران پر رہے یا زمین پر، اس میں آپ کا کیا حرج ہے؟ فرمایا: نہیں، زمین پر رکھ دو۔ چناںچہ میں نے زمین پر رکھ دیا تو فرمایا: اگر میرے ربّ نے مجھ پر رحم نہ کیا تو میری بھی ہلاکت ہے اور میری ماں کی بھی۔ اور حضرت مِسْور کہتے ہیں: جب حضرت عمر ؓ کو نیزہ مارا گیا تو فرمایا: اگر مجھے اتنا سونا مل جائے جس سے ساری زمین بھر جائے، تو میں اللہ کے عذاب کو دیکھنے سے پہلے ہی اس سے بچنے کے لیے وہ سارا سونا فدیہ میں دے دوں۔2کیا امیر کسی کی ملامت سے ڈرے ؟ حضرت سائب بن یزید ؓ فرماتے ہیں: ایک آدمی نے حضرت عمربن خطّاب ؓ سے پوچھا کہ میرے لیے اللہ کے راستہ میں کسی ملامت سے نہ ڈرنا بہتر ہے یا اپنے نفس کی اصلاح کی طرف متوجہ رہنا بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا: جو مسلمانوں کے کسی کام کا ذمہ دار بنایا گیا ہو، اسے تو اللہ کے راستہ میں کسی کی ملامت سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ اور جو اجتماعی ذمہ داری سے فارغ ہو، اسے اپنے نفس کی اصلاح کی طرف متوجہ رہنا چاہیے۔ البتہ اپنے امیر کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ رکھے۔3 …٭ ٭ ٭…