حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ان میں (ہر چیز برابر) تقسیم کرتے ہیں اور ان کے ساتھ ایسی شفقت ومحبت کا معاملہ کرتے ہیں جیسے کوئی آدمی اپنے گھر والوں کے ساتھ کرتا ہے، اور آپ ہر فیصلہ اللہ کی کتاب کے مطابق کرتے ہیں۔ اس پر حضرت کعب نے فرمایا: میرا خیال نہیں تھا کہ اس مجلس میں میرے علا وہ بھی کوئی آدمی ایسا ہے جو خلیفہ اور بادشاہ کے فرق کو جانتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت سلمان کو حکمت اور علم سے بھر ا ہوا ہے۔ پھر حضرت کعب نے فرمایا: میں اس بات کی گواہی دیتاہوں کہ آپ خلیفہ ہیں اور بادشاہ نہیں ہیں۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: آپ یہ گواہی کس بنیادپر دے رہے ہیں؟ حضرت کعب نے کہا: میں آپ کا ذکر اللہ کی کتاب (یعنی تورات) میںپاتاہوں۔ حضرت عمر نے پوچھا: کیا اس میں میرا ذکر میرے نام کے ساتھ ہے؟ حضرت کعب نے کہا:نہیں، بلکہ آپ کا ذکر آپ کی صفات کے ساتھ ہے۔ چناںچہ تورات میں اس طرح ہے کہ پہلے نبوت ہو گی پھر نبوت کے طریقے پر خلافت اور رحمت ہو گی، پھر نبوت کے طریقے پر خلافت اور رحمت ہوگی۔ اس کے بعد ایسی بادشاہت ہو گی جس میں کچھ ظلم بھی ہو گا۔1خلیفہ کی نرمی اور سختی کا بیان حضرت سعید بن مسیب ؓ کہتے ہیں: جب حضرت عمر ؓ خلیفہ بنا ئے گئے تو انھوں نے حضور ﷺ کے منبر پر (کھڑے ہو کر) بیان فرمایا۔ پہلے اللہ کی حمد وثنا بیان کی پھر فرمایا: اے لوگو! مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ مجھ میں سختی اور دُرشتی دیکھتے ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں حضور ﷺ کے ساتھ ہو تا تھا۔ میں آپ کا غلام اور خاد م تھا اور (آپ کے بارے میں) اللہ تعالیٰ نے جیسے فرمایاہے: {بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ}1 (ایمان داروں کے ساتھ بڑے ہی شفیق مہربان ہیں۔) آپ واقعی ایسے ہی (بڑے ہی شفیق اور مہر بان) تھے۔اس لیے میںآپ کے سامنے سُتی ہوئی ننگی تلوار کی طرح رہتا تھا۔ اگر آپ مجھے نیام میں ڈال دیتے یا مجھے کسی کام سے روک دیتے تو میں رُک جاتا، ورنہ میں آپ کی نرمی کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ سختی سے پیش آتا۔ حضور ﷺ کی زندگی میں میرا یہی طرز رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو اپنے ہاں بلا لیا اور دنیا سے جاتے وقت حضور ﷺ مجھ سے راضی تھے۔ میں اس پر اللہ کا بہت شکر ادا کرتا ہوں اور اسے اپنی بڑی سعادت سمجھتا ہوں۔ پھر حضور ﷺ کے بعد ان کے خلیفہ حضرت ابو بکر ؓ کے ساتھ میرا یہی رویہ رہا۔ آپ لوگ اُن کے کرم، تواضع اور نرم مزاجی کو جانتے ہی ہیں۔ میں اُن کا خادم تھا اور ان کے سامنے سُتی ہوئی تلوار کی طرح رہتا تھا۔ میں اپنی سختی کو اُن کی نرمی کے ساتھ ملا دیتا تھا۔ اگر وہ کسی معاملہ میں خود پہل کرلیتے تو میں رُک جاتا ورنہ میں اِقدام کر لیتا۔ اور ان کے ساتھ میرا یہی رویہ رہا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا سے اُٹھا لیا اور دنیا سے جاتے وقت وہ مجھ سے راضی تھے۔ میں اس پر اللہ کا بڑا شکر ادا کرتا ہوں اور میں اسے اپنی بڑی سعادت