حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حضرت عمیر بن عبد الملک ؓ کہتے ہیں: جب حضرت عمر ؓ نے حضرت عتبہ بن غزوان ؓکو بصرہ بھیجا تو ان سے فرمایا: اے عتبہ! میں نے تمہیں ہند کی زمین کا گورنر بنا دیا ہے۔ (چوںکہ بصرہ خلیج کے ساحل پر واقع ہے اور یہ خلیج ہند کی زمین تک پہنچ جاتی ہے اس وجہ سے بصرہ کو ہندکی زمین کہہ دیا) اور یہ دشمن کی سخت جگہوں میں سے ایک سخت جگہ ہے۔ اور مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اِردگرد کے علاقہ سے تمہاری کفایت فرمائے گا اور وہاں والوں کے خلاف تمہاری مدد فرمائے گا۔ میں نے حضرت علاء بن حضرمی کو خط لکھا ہے کہ وہ تمہاری مدد کے لیے حضرت عَرْفَجہ بن ہَرْثمہ کو بھیج دیں۔ یہ دشمن سے سخت جنگ کرنے والے اور اس کے خلاف زبردست تدبیریں کرنے والے ہیں۔ جب وہ تمہارے پاس آجائیں تو تم ان سے مشورہ کرنا اور ان کو اپنے قریب کرنا۔ پھر (بصرہ والوں کو) اللہ کی طرف دعوت دینا۔ جو تمہاری دعوت کو قبول کرلے تم اس سے اس کے اِسلام کو قبول کرلینا، اور جو (اِسلام کی دعوت سے) انکار کرے تو اسے ذلیل اور چھوٹا بن کر جزیہ ادا کرنے کی دعوت دینا۔ اگر وہ اسے بھی نہ مانے تو پھر تلوار لے کر اس سے لڑنا اور اس کے ساتھ نرمی نہ برتنا۔ اور جس کام کی ذمہ داری تمہیں دی گئی اس میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ اور اس بات سے بچتے رہنا کہ کہیں تمہارا نفس تمہیں تکبر کی طرف نہ لے جائے، کیوںکہ تکبر تمہاری آخرت خراب کر دے گا۔ تم حضورﷺ کی صحبت میں رہے ہو۔ تم ذلیل تھے حضور ﷺ کی وجہ سے تمہیں عزّت ملی ہے۔ تم کمزور تھے حضور ﷺ کی وجہ سے تمہیں طاقت ملی ہے۔ اور اب تم لوگوں پر امیر اور ان کے بادشاہ بن گئے ہو، جو تم کہو گے اسے سنا جائے گا، اور جو تم حکم دو گے اسے پورا کیا جائے گا۔ یہ اَمارت بہت بڑی نعمت ہے بشرطیکہ اَمارت کی وجہ سے تم اپنے آپ کو اپنے درجہ سے اُونچا نہ سمجھنے لگ جاؤ اور نیچے والوں پر تم اکڑنے نہ لگ جاؤ۔ اس نعمت سے ایسے بچو جیسے تم گناہوں سے بچتے ہو۔ اور مجھے نعمتِ اَمارت اور گناہ میں سے نعمتِ اَمارت کے نقصان کا تم پر زیادہ خطرہ ہے کہ یہ آہستہ آہستہ تمہیں دھوکہ دے گی (اور تمہیں تکبراور تحقیرِ مسلم میں مبتلا کر دے گی) اور پھر تم ایسے کرو گے کہ سیدھے جہنم میں چلے جاؤ گے۔ میں تمہیں اور اپنے آپ کو اَمارت کے ان نقصانات سے اللہ کی پناہ میں دیتا ہوں (یعنی مجھے اور تمہیں اللہ تعالیٰ اَمارت کے شر سے بچا کر رکھے)۔ لوگ اللہ کی طرف تیزی سے چلے (خوب دین کا کام کیا) جب (دین کا کام کرنے کے نتیجہ میں) دنیا ان کے سامنے آئی تو انھوں نے اسے ہی اپنا مقصد بنا لیا۔ لہٰذا تم اللہ کو ہی مقصد بنانا دنیا کو نہ بنانا اور ظالموں کے گرنے کی جگہ یعنی دوزخ سے ڈرتے رہنا۔1حضرت عمر بن خطّاب ؓکا حضرت عَلَاء بن حَضْرَمی ؓ کو وصیت کرنا