حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بارے میں میرے متعلق فیصلہ کرو۔ آج میں اس گھر میں داخل ہوا۔ میرا ارادہ یہ تھا کہ یہاں سے مسجدِ حرام جانا نزدیک پڑے گا۔ میں نے اپنی چادر اس کھونٹی پر لٹکا دی تو اس پر حرم کا ایک کبوتر آبیٹھا، مجھے ڈر ہوا کہ یہ بِیٹ کرکے کہیں چادر کو خراب نہ کر دے اس لیے میں نے اسے اُڑا دیا۔ وہ اُڑ کراس دوسری کھونٹی پر آبیٹھا۔ وہاں لپک کر ایک سانپ نے اسے پکڑ لیا اور اسے مار ڈالا۔ اب میرے دل میں یہ خیال آرہا ہے کہ وہ پہلی کھونٹی پر محفوظ تھا وہاں سے میں نے اسے اُڑا دیا، وہ اڑ کر اس دوسری کھونٹی پر آگیا جہاں اسے موت آگئی۔یعنی میں ہی اس کے قتل کا سبب بنا ہوں۔ یہ سن کر میں نے حضرت عثمان سے کہا: آپ کا کیا خیال ہے اگر آپ امیر المؤمنین پر دو دانت والی سفید بکری دینے کا فیصلہ کردیں؟ انھوں نے کہا: میری بھی یہی رائے ہے۔ چناںچہ حضرت عمر ؓ نے اس طرح کی بکری دینے کا حکم دیا۔1حضرت علی مرتضیٰ ؓ کا عدل وانصاف حضرت کُلَیب ؓ کہتے ہیں: حضرت علی ؓ کے پاس اِصْبَہان سے مال آیا، آپ نے اسے سات حصوں میں تقسیم کیا۔اس میں آپ کو ایک روٹی بھی ملی، آپ نے اس کے سات ٹکڑے کیے اور ہر حصہ پر ایک ٹکڑا رکھ دیا۔ پھر لشکر کے ساتوں حصوں کے امیروں کو بلایا اور ان میں قرعہ اندازی کی تاکہ پتہ چلے کہ ان میں سے پہلے کس کو دیا جائے۔2 حضرت عبد اللہ ہاشمی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں: حضرت علی ؓ کے پاس دوعورتیں مانگنے کے لیے آئیں ان میں سے ایک عربی تھی اور دوسری اس کی آزاد کردہ باندی تھی۔ آپ نے حکم دیا کہ ان میں سے ہر ایک کو ایک کُر(تقریباً ۶۳ من) غلّہ اور چالیس درہم دیے جائیں۔ اس آزاد شدہ باندی کو تو جو ملا وہ اسے لے کر چلی گئی، لیکن عربی عورت نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ نے اس کو جتنا دیا مجھے بھی اتنا ہی دیا،حالاںکہ میں عربی ہوں اور یہ آزاد کردہ باندی ہے۔ اس سے حضرت علی نے کہا: میں نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں بہت غور سے دیکھا تو اس میں مجھے اولادِ اسماعیل ؑ کواولادِ اسحاق ؑ پر کوئی فضیلت نظر نہیں آئی۔3 حضرت علی بن ربیعہ ؓ کہتے ہیں: حضرت جَعْدہ بن ہُبَیْرہ نے حضرت علی ؓ کی خدمت میں آکر کہا: اے امیر المؤمنین! آپ کے پاس دو آدمی آئیں گے۔ ان میں سے ایک کو تو اپنی جان سے بھی زیادہ آپ سے محبت ہے، یا یوں کہا: اپنے اہل وعیال اور مال و دولت سے بھی زیادہ محبت ہے اور دوسرے کا بس چلے تو آپ کو ذبح کردے۔ اس لیے آپ دوسرے کے خلاف پہلے کے حق میں فیصلہ کریں۔ اس پر حضرت علی نے حضرت جَعْدہ کے سینہ پرمکّامارا اور فرمایا: اگر یہ فیصلے اپنے آپ کو راضی کرنے کے لیے ہوتے تو میں ضرور ایسا کرتا، لیکن یہ فیصلے تو اللہ کو راضی کرنے کے لیے ہوتے ہیں (اس لیے میں تو حق کے مطابق فیصلہ کروں گا، اب وہ فیصلہ جس کے حق میں چاہے ہوجائے) ۔1