حیاۃ الصحابہ اردو جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دیتے۔ جتنی دیر میں وہ مسکین کو دے کر واپس آتے اتنی دیر میں گھروالے پیالہ ختم کرچکے ہوتے۔ اگر مجھے اس پیالہ میں کچھ مل جاتا تو ان کو بھی مل جاتا۔ پھر اسی حال میں حضرت ابنِ عمرصبح روزہ رکھ لیتے۔2مانگنے والوں پر مال خرچ کرنا حضرت انس ؓ فرماتے ہیں: ایک دن حضور ﷺ مسجد میں تشریف لائے۔ آپ کے اوپر نجران (یمن کا ایک شہر) کی بنی ہوئی ایک چادر تھی جس کا کنارہ موٹا تھا۔ آپ کے پیچھے سے ایک دیہاتی آیا۔ اس نے آپ کی چادر کا کنارہ پکڑ کر اس زور سے کھینچا کہ آپ کی گردن مبارک پر اس موٹے کنارے کا نشان پڑگیا۔ اور اس نے کہا: اے محمد! اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے اس میں سے ہمیں بھی دو۔ حضور ﷺ نے اس کی طرف متوجہ ہو کر تبسّم فرمایا اور فرمایا: اسے ضرور کچھ دو۔3 حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں: ہم لوگ حضور ﷺ کے ساتھ صبح کو مسجد میں بیٹھے رہتے تھے۔ جب حضور ﷺ گھر جانے کے لیے کھڑے ہوتے تو ہم لوگ آپ کے گھر میں داخل ہونے تک کھڑے رہتے۔ چناںچہ ایک دن حضور ﷺ گھر جانے کے لیے کھڑے ہوئے۔ جب آپ مسجد کے درمیان میں پہنچے تو ایک دیہاتی آپ کے پاس پہنچا اور اس نے اس زور سے آپ کی چادر کھینچی کہ آپ کی گردن مبارک سرخ ہوگئی۔ اور اس نے کہا: اے محمد! مجھے دو اُونٹ دیں، کیوںکہ یہ دو اُونٹ نہ تو آپ اپنے مال میں سے دیں گے اور نہ اپنے والد کے مال میں سے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: نہیں، میں تو اللہ سے مغفرت چاہتا ہوں۔ جب تک تم مجھے اس کا بدلہ نہیں دو گے میں تمہیں اُونٹ نہیں دوں گا۔ یہ بات حضور ﷺ نے تین مرتبہ فرمائی۔ (پھر حضور ﷺ نے اسے معاف فرما دیا، بلکہ اس کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ فرمایا) اور پھر ایک آدمی کو بلا کر کہا: اسے دو اُونٹ دے دو: ایک اونٹ جَو کا اور دوسرا کھجور کا۔1 حضرت نعمان بن مُقرِن ؓ فرماتے ہیں: ہم قبیلہ مُزَینہ کے چار سو آدمی حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضور ﷺ نے ہمیں اپنے دین کے احکام بتائے۔ (جب ہم حضور ﷺ سے فارغ ہو کر واپس جانے لگے تو) ایک آدمی نے کہا: یا رسول اللہ! راستہ کے لیے ہمارے پاس کھانے کی کوئی چیز نہیں ہے۔ حضور ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا: انھیں راستہ کے لیے توشہ دے دو۔ حضرت عمر نے کہا: میرے پاس تو بس تھوڑی سی بچی ہوئی کھجوریں ہیں، میرے خیال میں تو وہ کھجوریں ان کی ضرورت کچھ بھی پوری نہ کرسکیں گی۔ حضور ﷺ نے فرمایا: جائو اور انھیں راستہ کے لیے تو شہ دے دو۔ چناںچہ حضرت عمر ہمیں ایک بالاخانے میں لے گئے ۔ وہاں ایک خاکستری جوان اُونٹ جتنی کھجوریںرکھی ہوئی تھیں۔ (یعنی بیٹھے ہوئے ایک اُونٹ جتنا اونچا کھجوروں کا ایک ڈھیر تھا) حضرت عمر نے کہا: آپ لوگ یہ کھجوریں لے لیں۔ ہمارے تمام قافلہ والوں نے اپنی ضرورت کے مطابق کھجوریں لے لیں اور میں سب سے آخر میں لینے گیا۔ میں نے دیکھا تو